قانون وقضا حافظ صلاح الدین یوسف خواتین ایکٹ کے اغراض و مقاصد وطنِ عزیز کے حالیہ المناک حالات بلاشبہ بداعمالیوں اور کوتاہیوں کا لازمی نتیجہ ہیں ۔ جن دشمنوں کو خوش کرنے کے لئے اپنوں کو بے دردی سے ہلاکت وبربادی کی بھینٹ چڑھایا گیا، آج وہی عراق وافغانستان کی طرح اُسامہ بن لادن کی یہاں موجودگی کا الزام لگاتے ہوئے ہم پر حملہ کے لئے پر تول رہے ہیں ۔ قوم کے سرکردہ افراد نے بالخصوص کچھ عرصے سے جس طرح اللہ کو ناراض کرنے اور مغربی آقاؤں کو خوش کرنے کی روش اپنا رکھی ہے،زیر نظر مضمون میں اس کا نقشہ کھینچا گیا ہے۔نئے آلام ومصائب میں ہم اس شرمناک ماضی قریب کو بھی بھولتے جارہے ہیں جب اللہ کے قانون کو چیلنج کرکے ہم نے اپنے اوپر اللہ کی ناراضگی مسلط کر لی تھی۔ خوفناک اندیشے اور مہیب سائے ہمیں اپنے ربّ کی طرف رجوع کی دعوت دیتے ہیں کہ مہلت کے لمحے ابھی باقی ہیں ۔یہ رجوع انفرادی بھی ہے، لیکن اجتماعی سطح پر ندامت، غلطیوں سے توبہ، اللہ سے مغفرت اور اس سے کئے وعدوں کو ایفا کئے بنا کوئی چارہ نہیں ۔ بقولِ شاعر فطرت افرادسے اِغماض بھی کرلیتی ہے ٭ کبھی کرتی نہیں ملت کے گناہوں کو معاف! (ح م) مغرب زدہ اور لادین عناصر کی ۲۷ سالہ جدوجہد کے نتیجے میں بالآخر حدود آرڈیننس (۱۹۷۹ء)کا تیاپانچہ کرکے ۱۳/ نومبر ۲۰۰۶ء کو تحفظ ِنسواں بل قومی اسمبلی اور بعد ازاں سینٹ سے پاس ہوکرصدر ِمملکت کے دستخط کے بعدایکٹ (قانون) کی صورت میں نافذ کردیا گیا۔ اس بل کا پاس ہوجانا اور پھر قانون بن کرنافذ ہوجانا، اُن اسلامیانِ پاکستان کے لئے جو پاکستان کامقصد ِقیام اسلام کانفاذ سمجھتے تھے اوراسی لئے اُنہوں نے جان و مال کی گراں قدر قربانیاں پیش کی تھیں ، ایک عظیم صدمے سے کم نہیں ۔ اس لئے اس پرقرآنِ کریم کے الفاظ میں إنا للّٰه وإنا الیہ راجعون ہی پڑھا جاسکتا اور پڑھا جاناچاہئے۔ قرآن نے کہا ہے : ﴿اَلَّذِیْنَ اِذَا اَصَابَتْھُمْ مُصِیْبَۃٌ قَالُوْا اِنَّا للّٰه وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ﴾ (البقرۃ:۱۵۶) ’’صابر مؤمنین کو جب کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو وہ إنا ﷲ … پڑھتے ہیں ۔‘‘ |