ہوجاتی ہے کہ وہ شرعی علوم کو حاصل کرنے کازیادہ سے زیادہ اہتمام کریں ۔ یہاں اہمیت و افادیت کے پیش نظر ان تین قسم کے اُمور کو بالترتیب دوبارہ ذکر کرتے ہیں : 1. بدعات و خرافات کا ظہور جن کا شروفساد پھیلتا اور بڑھتا چلا جاتا ہے۔ 2. بغیر علم کے دیئے گئے فتوؤں کی شہرت اور ان پر کثرت سے لوگوں کا عمل پیرا ہونا۔ 3. جہالت کے مارے ہوئے فریب خوردہ لوگوں کا ایسے شرعی مسائل میں کثرت سے بحث و تکرار اور جھگڑا و فساد جواہل علم کے ہاں بسااوقات واضح ہوتے ہیں لیکن کوئی علم سے عاری شخص آکر ان میں اختلاف کرتے ہوئے لوگوں کے درمیان جھگڑے و فساد کاطوفان کھڑا کردیتا ہے۔ اسی بنا پر ہمیں آج کے پُرآشوب دور میں ایسے علماے حق کی اشد ضرورت ہے جو علم میں وسعت کے ساتھ پختگی بھی رکھتے ہوں ، اللہ کے دین کی صحیح سوجھ بوجھ کے حامل ہوں اور اللہ کے بندوں کی رہنمائی میں حد درجے کی حکمت و مصلحت کو بروئے کار لانے میں اُنہیں مہارتِ تامہ حاصل ہو۔ اس لئے کہ بہت سے لوگ اب کسی بھی مسئلے کو حل کرنے میں سطحی نگاہ سے دیکھتے ہوئے دوسروں کی رہنمائی کرتے ہیں ، جبکہ ان کو اللہ تعالیٰ کی مخلوق کی اصلاح و فلاح اور صحیح تربیت کی مطلق پرواہ نہیں ہوتی اور یہی وجہ ہے کہ جب وہ کسی بھی معاملے میں فتویٰ دیتے ہیں تو وہ مسلم معاشرے میں اتنے بڑے شروفساد کا باعث بنتا ہے کہ جس کی انتہا اللہ تعالیٰ کے سوا اور کوئی نہیں جان سکتا۔ والعیاذ با اللّٰه من ذلک اس لئے صحیح اور پختہ شرعی علم جو کتاب وسنت کی بنیادپر لوگوں کو اللہ کی طرف دعوت دے، اس کی تعلیم اور تفقہ حاصل کرنا اس دور کی اہم ترین ضرورت ہے۔ فی زمانہ اسلام ایک مظلوم مذہب بن چکا ہے، اور اس کے احکام وشعائر کو طنز وتضحیک کا نشانہ بنایا جارہا ہے، ان حالات میں اللہ کے دین کی نصرت کے لئے کھڑے ہوجانا اور نبوت کی وراثت کوتھام لینا دنیا کی سب سے عظیم سعادت ہے۔ اللہ تعالیٰ اہل علم کو صبر واستقامت اور اپنے علم کے مطابق عمل صالح کرنے کی توفیق مرحمت فرمائے۔ آمین! [شیخ محمد بن صالح عثیمین رحمۃ اللہ علیہ کی عربی تالیف کتاب العلم کے پہلے باب کا ترجمہ ] |