Maktaba Wahhabi

57 - 80
سے نوازے گا اور دنیا میں بھی اللہ جل شانہ اپنے بندوں میں ان کی اقامت ِدین کے سلسلے میں محنت و کاوش کا صلہ و ثمرہ دیتے ہوئے اُنہیں امتیازی شان و مقام مرحمت فرمائے گا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿یَرْفَعِ اللّٰه الَّذِیْنَ آمَنُوْا مِنْکُمْ وَالَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ دَرَجٰتٍ﴾ ’’تم میں سے جو لوگ ایمان لائے ہیں اور جو علم سے نوازے گئے ہیں ، اللہ تعالیٰ (دونوں جہانوں میں ) ان کے درجے بلند کرے گا۔‘‘(المجادلۃ:۱۱) حصولِ علم کا حکم شرعی علوم کو سیکھنا فرضِ کفایہ ہے اور جب کوئی شخص اس حد تک علم حاصل کرلے کہ وہ علاقے کے لوگوں کے لئے کافی ہو تو پھر دوسرے لوگوں کے لئے علم حاصل کرنا ’مستحب‘ ہے۔ البتہ بعض اوقات شرعی علم کا حصول انسان پر فرضِ عین ہوجاتا ہے، خاص طور پر جب کوئی عبادت جسے وہ ادا کرنے کا ارادہ رکھتا ہو، یا کوئی معاملہ جسے وہ نمٹاناچاہتا ہو، اور ان دونوں قسم کے اعمال کا انحصار اسی ایک شخص پر ہو تو ایسے حالات میں اس پر یہ واجب ہے کہ وہ پہلے اچھی طرح سے جان لے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی بندگی کا یہ عمل کیسے بجالائے، اور اس معاملے کو بھی کس طرح صحیح طریقے سے سرانجام دے گااور اسکے سوا علم کی جو بھی صورت ہے وہ فرضِ کفایہ ہے۔ لہٰذا ایک طالب ِعلم کو چاہئے کہ وہ دورانِ تعلیم و تعلّم ہمہ وقت یہ بات اپنے پیش نظر رکھے کہ وہ ایک فرضِ کفایہ عمل کو ادا کررہا ہے، تاکہ وہ اس مبارک عمل، تحصیل علم کے ساتھ ساتھ ایک فرض کی ادائیگی کا اجروثواب بھی حاصل کرسکے۔ اس بات میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ علم حاصل کرنا، افضل ترین اعمال میں سے ہے بلکہ وہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کی قسموں میں سے ایک قسم ہے اور خاص طور پر ہمارے آج کے اس دور میں جہاں ایک طرف اسلامی معاشرے میں بدعات و خرافات کثرت سے پھیلتی اور بڑھتی چلی جارہی ہیں تو دوسری طرف بغیرعلم کے صادر ہونے والے فتووں سے جہالت کاطوفان اُمڈتا چلا آرہا ہے اور رہی سہی کسر جہالت کے مارے ہوئے لوگوں کے درمیان کثرت سے ہونے والی بحث و تکرار اور لڑائی جھگڑے نے پوری کردی ہے۔ مذکورہ تینوں قسم کے مسائل کی بنا پرنوجوانانِ ملت ِاسلامیہ پر یہ لازمی ذمہ داری عائد
Flag Counter