Maktaba Wahhabi

60 - 80
جمہوریت، اسلام اور مسلمانوں کے لئے ایک عظیم خطرہ حدود آرڈیننس تقریباً ۲۷ سال نافذ رہا، لیکن حکومتوں کی بدنیتی، مغرب سے مرعوبیت اور غلامانہ ذہنیت کی وجہ سے عملاً غیر مؤثر رہا اور کسی ایک شخص کو بھی اس کے تحت صحیح معنوں میں سزا نہیں مل سکی، صرف داروگیر اور قید و بند تک معاملہ رہا اور ججوں سمیت عدالتی اہل کاروں ، وکیلوں اور پولیس کی چاندی رہی اوراس طویل عرصے میں کسی ایک حد کا بھی نفاذ نہیں ہوسکا۔ یہ تاریخ انسانی کا ایک عجوبہ قانون ہے جس کے تحت ابھی تک کسی کوسزا نہیں ملی، حالانکہ چوری کی وارداتیں اتنی کثرت سے ہوتی ہیں کہ الامان والحفیظ۔ اسی طرح زنا کاری کاجرم بھی کثیرالوقوع ہے اور شراب نوشی بھی عام ہے۔ پھر کیا وجہ ہے کہ حدود آرڈیننس کے خلاف اتنا شوروغوغابلند رہا، سیکولر گروہ اس کے خلاف مسلسل سرگرم اور متحرک رہے اورمغربی لابیاں اور این جی اوز اس کو ایک چیلنج سمجھتی رہیں اور اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھیں جب تک کہ اس کے بالکل برعکس ایک سراسر غیر اسلامی قانون اُنہوں نے منظور نہیں کروا لیا۔ یہ سب مغربی جمہوریت کاشاخسانہ اوراس کی ’برکات‘ ہیں ۔ مغربی استعمار اور اس کے گماشتے اسلامی ملکوں میں جمہوریت کے نفاذ پر جوزور دیتے ہیں ، اس کا مقصد یہی ہے کہ اس کے ذریعے سے اسلامی ملکوں اور اسلامی معاشروں کو ان کی اسلامی خصوصیات اور اسلامی تہذیب واقدار سے دور کردیا جائے۔ یہ مقصد جمہوریت ہی سے حاصل ہوسکتاہے، کیونکہ جمہوریت ہی میں آزادئ رائے کی مکمل اجازت ہے اور اس اجازت کامطلب یہی ہے کہ ہرشخص کو اپنی رائے کے اظہار اور اس کی طرف لوگوں کوبلانے کاحق حاصل ہے۔ قطع نظر اس کے کہ وہ نظریہ یا رائے اسلام کے خلاف ہے یا اس کے مطابق؟ علاوہ ازیں اسمبلیاں مطلقاً قانون سازی کا حق رکھتی ہیں ، اس کے ممبر عوام کے منتخب نمائندے ہیں ، وہ اکثریتی رائے سے جو چاہیں قانون بنا سکتے اور نافذ کرسکتے ہیں ، ان کواللہ اور رسول کی رائے اوران کی باتوں کاپابند نہیں کیا جا سکتا۔ مغربی جمہوریت کی انہی دو کمزوریوں یا بقول اُن کے دو’خوبیوں ‘ سے مذکورہ عناصر نے فائدہ اُٹھایا۔ پہلے ۲۷ سالہ یکطرفہ جھوٹے پروپیگنڈے کے زور سے یہ باور کرایاگیا کہ حدود
Flag Counter