آرڈیننس کی وجہ سے عورت پربڑا ظلم ہورہاہے، اس لئے اس کو ختم کرکے عورت کی دادرسی کا اہتمام ضروری ہے۔دوسرے نمبر پرقومی اسمبلی میں اپنی اکثریت کے بل پرمتنازعہ اور خلافِ اسلام بل پاس کروالیا۔ یہ اُن حضرات کے لئے لمحہ فکریہ ہے جو کہتے ہیں کہ جمہوری نظام اسلام کے خلاف نہیں ہے بلکہ اسلام کے مطابق ہے، جس طرح پہلے سوشلسٹ اور کمیونسٹ کہتے تھے کہ سوشلزم عین اسلام ہے، اس میں کوئی بات خلافِ اسلام نہیں ۔ حالات اور واقعات نے ثابت کردیا کہ جس طرح سوشلزم کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ، اسی طرح جمہوریت بھی سراسر غیر اسلامی نظام ہے اور اس کے ذریعے سے کبھی اسلام نہیں آسکتا؛ ہاں ! اسلام سے دُوری ضرور پیدا ہوسکتی ہے۔ دیکھ لیجئے، قومی اسمبلی اور سینٹ میں اسلامی ذہن رکھنے والے حضرات ایک معقول تعداد میں موجود ہیں ،لیکن وہ زیر بحث بل کو رکوانے میں ناکام رہے اور خدانخواستہ یہ قانون اگر چند سال نافذ رہ گیاتو اسلام کے تصورِ عفت وحیا کی دھجیاں بکھر جائیں گی اور حیاباختگی کا وہ طوفان آئے گا کہ جس کے تصور ہی سے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں ۔ لا قدّرہ ﷲ قانون کا نام ’تحفظ ِنسواں ‘کیوں ؟ اس قانون کو ’تحفظ ِنسواں ‘کا نام دیاگیاہے۔حالانکہ اس قانون کا تعلق زنا اور قذف کی سزاؤں سے ہے جس میں مردوں کی طرح عورتیں بھی ملوث ہوسکتی ہیں ۔ مردوں کی طرح عورتیں بھی ورغلا کر مردوں کو زناکاری پر آمادہ یا مجبور کرسکتی ہیں جیسے قرآن مجید میں امرأۃ العزیزاور حضرت یوسف علیہ السلام کا واقعہ اس کی سب سے بڑی دلیل ہے۔اسی طرح زنا کی جھوٹی تہمت بھی مردوں کی طرح عورت بھی لگا سکتی ہے بلکہ عام مشاہدہ تو یہ ہے کہ عورتیں دوسری عورتوں پر زنا کی تہمت لگانے میں بڑی بے باک ہوتی ہیں ۔ جب واقعہ یہ ہے کہ زنا اور قذف (زنا کی جھوٹی تہمت) کا ارتکاب مردوں کی طرح عورتوں سے بھی ہو سکتا ہے اورہوتا بھی ہے تو پھر اسے تحفظ ِنسواں کا نام کس طرح دیا جاسکتاہے؟ کیا دنیامیں کوئی قانون ایسا بھی ہے جسے ’تحفظ ِمرداں ‘ یا ’تحفظ ِحقوقِ مرداں ‘ کے نام سے موسوم کیا جاتاہو۔ تنظیمیں اور وزارتیں تو مخصوص اَغراض ومقاصد کے لئے بنتی ہیں ، تو ان کے نام بھی ان کے مخصوص اغراض و مقاصد |