کے مطابق رکھ لئے جاتے ہیں ۔ اگر حکومت بھی ایک پرائیویٹ تنظیم یا اس کا تعلق کسی ایک وزارت سے ہے، تو وہ صرف حقوقِ نسواں کے تحفظ کو اپنا مقصد ِ وحید قرار دے سکتی ہے، لیکن اگر حکومت کا مقصد تمام شہریوں کے حقوق کا تحفظ ہے، چاہے وہ مرد ہو یا عورت تو پھر حکومت کے فرائض میں مردوعورت دونوں کے حقوق کا تحفظ، یکساں طور پر داخل ہے۔وہ کسی ایک صنف کو نظر انداز کرکے دوسری صنف ہی کواپنا مطمح نظر قرار نہیں دے سکتی۔ بالخصوص ایسے معاملات میں جن میں دونوں صنفیں برابر کے حقوق رکھتی ہوں ،کسی ایسے جرم کے ارتکاب کی سزا کے لئے قانون بنایا جائے جس کا ارتکاب مرد اور عورت دونوں میں سے کوئی بھی کرسکتا ہے تو اس قانون کا نام ایسا تجویز کیا جائے گا جو اس جرم کے انسداد اور اس کی سزا کا مظہر ہو، نہ کہ کسی ایک صنف کے نام پر اسے موسوم کردیاجائے گا۔ مثلاً، رشوت کے انسداد اور اس کی سزا کے لئے کوئی قانون بنایا جائے تو کیااس کا نام تحفظ حقوقِ مرداں یا نسواں یا تحفظ ِعوام رکھا جاسکتاہے؟ قانون تو سب کے لئے یکساں ہوتاہے، جو بھی اس قانون کی خلاف ورزی کرے گا، مرد ہویا عورت؛ اس کا مؤاخذہ و احتساب ہوگا، اس کو قانون کی گرفت میں لایاجائے گا، اس قانون کو کسی ایک صنف کے حقوق کے تحفظ کا مظہر کیونکرقرار دیا جاسکتا ہے؟ بنابریں زیربحث قانون جس کا تعلق زنااور قذف کے جرم سے ہے، اس کا نام ’خواتین ایکٹ ‘یا’تحفظ ِنسواں ‘رکھنا ہی بنیادی طور پر غلط ہے اور اس صنفی امتیاز کامظہر ہے جس کو ختم کرنے کا حکومت مسلسل اعلان اور دعویٰ کرتی آ رہی ہے۔ ’تحفظ ِنسواں ‘ نام کاپس منظر ایک جھوٹا پروپیگنڈہ ہے! واقعہ یہ ہے کہ یہ عجیب و غریب نام بھی ایک پس منظر رکھتا ہے اور وہ یہ کہ سیکولر عناصر، مغرب زدہ حضرات اور بیرونی استعمار کی پروردہ اورایجنٹ این جی اوز مسلسل یہ پروپیگنڈہ کرتی چلی آرہی ہیں کہ حدودآرڈیننس کی وجہ سے عورتوں پر بڑا ظلم ہورہاہے، جو عورت بھی آکر یہ فریاد کرتی ہے کہ اس کی عصمت دری کی گئی ہے تو اس سے اپنے دعویٰ کی سچائی کے لیے چار عینی گواہوں کا مطالبہ کیاجاتاہے،جن کا پیش کرنا ناممکن ہے ۔نتیجتاً خود اس عورت کو الزامِ زنا میں دھر لیا جاتاہے اوراس کو حوالۂ زنداں کردیاجاتاہے۔یہ پروپیگنڈہ یکسر خلافِ واقعہ ہے۔ اس کی |