وضاحت مولاناتقی عثمانی (سابق جج وفاقی شرعی عدالت و شریعت اپیلیٹ بنچ) نے خود اپنے ایک مضمون میں کی ہے جو کم وبیش ۲۰،۲۱ سال ان مقدمات کی سماعت کرتے رہے ہیں ، ان سے زیادہ واقف ِحال کوئی اور نہیں ہوسکتا۔ اُنہوں نے اس پروپیگنڈے کے غبارے کی ساری ہوا نکال دی ہے، ان کے مضمون سے متعلقہ اقتباس ملاحظہ ہو۔ تحریر فرماتے ہیں : ’’قرآنِ کریم، سنت ِنبویہ علی صاحبہا السلام اور خلفاے راشدین کے فیصلوں سے یہ بات کسی شبے کے بغیر ثابت ہے کہ زنا کی حد جس طرح رضامندی کی صورت لازم ہے، اسی طرح زنا بالجبر کی صورت میں بھی لازم ہے اوریہ کہنے کا کوئی جواز نہیں ہے کہ قرآن و سنت نے زنا کی جو حد (شرعی سزا) مقرر کی ہے، وہ صرف رضا مندی کی صورت میں لاگوہوتی ہے، جبر کی صورت میں اس کا اطلاق نہیں ہوتا۔ سوال یہ ہے کہ پھرکس وجہ سے زنابالجبر کی شرعی سزا کو ختم کرنے پر اتنا اصرار کیاگیا ہے؟ اس کی وجہ دراصل ایک انتہائی غیر منصفانہ پروپیگنڈا ہے جو حدود آرڈیننس کے نفاذ کے وقت سے بعض حلقے کرتے چلے آرہے ہیں ، پروپیگنڈا یہ ہے کہ حدود آرڈیننس کے تحت اگر کوئی مظلوم عورت کسی مرد کے خلاف زنا بالجبر کا مقدمہ درج کرائے تو اس سے مطالبہ کیاجاتا ہے کہ وہ زنا بالجبر پر چارگواہ پیش کرے، اور جب وہ چار گواہ پیش نہیں کرسکتی تو اُلٹا اسی کو گرفتار کرکے جیل میں بند کردیا جاتا ہے۔ یہ وہ بات ہے جو عرصۂ دراز سے بے تکان دہرائی جارہی ہے، اور اس شدت کے ساتھ دہرائی جارہی ہے کہ اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگ اسے سچ سمجھنے لگے ہیں ، اور یہی وہ بات ہے جسے صدرِ مملکت نے بھی اپنی نشری تقریر میں اس بل کی واحد وجہ ِجواز کے طور پرپیش کیا ہے۔ جب کوئی بات پروپیگنڈے کے زور پرگلی گلی اتنی مشہور کردی جائے کہ وہ بچے بچے کی زبان پر ہو تو اس کے خلاف کوئی بات کہنے والا عام نظروں میں دیوانہ معلوم ہوتاہے، لیکن جو حضرات انصاف کے ساتھ مسائل کا جائزہ لینا چاہتے ہیں ، میں اُنہیں دل سوزی کے ساتھ دعوت دیتاہوں کہ وہ براہِ کرام پروپیگنڈے سے ہٹ کر میری آئندہ معروضات پر ٹھنڈے دل سے غور فرمائیں ۔ واقعہ یہ ہے کہ میں خود پہلے وفاقی شرعی عدالت کے جج کی حیثیت سے اور پھر سترہ سال تک سپریم کورٹ کی شریعت اپیلیٹ بنچ کے رکن کی حیثیت سے حدود آرڈیننس کے تحت درج ہونے والے مقدمات کی براہِ راست سماعت کرتا رہاہوں ۔اتنے طویل عرصے |