میں میرے علم میں کوئی ایک مقدمہ بھی ایسا نہیں آیا جس میں زنا بالجبر کی کسی مظلومہ کو اس بنا پر سزا دی گئی ہو کہ وہ چار گواہ پیش نہیں کرسکی، اور حدود آرڈیننس کے تحت ایسا ہونا ممکن بھی نہیں تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حدود آرڈیننس کے تحت چار گواہوں یا ملزم کے اقرار کی شرط صرف زنا بالجبر موجب ِحد کے لئے تھی،لیکن اسی کے ساتھ دفعہ ۱۰(۳) زنا بالجبر موجب ِتعزیر کے لئے رکھی گئی تھی جس میں چار گواہوں کی شرط نہیں تھی، بلکہ اس میں جرم کا ثبوت کسی ایک گواہ، طبی معائنے اور کیمیاوی تجزیہ کار کی رپورٹ سے بھی ہوجاتا تھا۔ چنانچہ زنا بالجبر کے بیشتر مجرم اسی دفعہ کے تحت ہمیشہ سزا یاب ہوتے رہے ہیں ۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ جو مظلومہ چارگواہ نہیں لاسکی، اگر اُسے کبھی سزا دی گئی ہو تو حدود آرڈیننس کی کون سی دفعہ کے تحت دی گئی ہوگی؟اگر یہ کہا جائے کہ اُسے قذف (یعنی زنا کی جھوٹی تہمت لگانے) پرسزا دی گئی تو قذف آرڈیننس کی دفعہ ۳ کے استثنا نمبر۳ میں صاف صاف یہ لکھا ہوا موجود ہے کہ جو شخص قانونی اتھارٹیز کے پاس زنا بالجبر کی شکایت لے کر جائے اُسے صرف اس بنا پر قذف میں بھی سزا نہیں دی جاسکتی کہ وہ چار گواہ پیش نہیں کرسکا/کرسکی۔ کوئی عدالت ہوش و حواس میں رہتے ہوئے ایسی عورت کو سزادے ہی نہیں سکتی، دوسری صورت یہ ہوسکتی ہے کہ اُسی عورت کو رضا مندی سے زنا کرنے کی سزا دی جائے، لیکن اگر کسی عدالت نے ایسا کیا ہو تو اس کی یہ وجہ ممکن نہیں ہے کہ وہ خاتون چار گواہ نہیں لاسکی، بلکہ واحد ممکن وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ عدالت شہادتوں کا جائزہ لینے کے بعد اس نتیجے پر پہنچی کہ عورت کا جبر کا دعویٰ جھوٹا ہے اور ظاہر ہے کہ اگر کوئی عورت کسی مرد پر یہ الزام عائد کرے کہ اس نے زبردستی اس کے ساتھ زنا کیاہے، اور بعد میں شہادتوں سے ثابت ہو کہ اس کا جبر کا دعویٰ جھوٹا ہے، اور وہ رضا مندی کے ساتھ اس عمل میں شریک ہوئی تو اسے سزا یاب کرنا انصاف کے کسی تقاضے کے خلاف نہیں ہے، لیکن چونکہ عورت کو یقینی طور پر جھوٹا قرار دینے کے لئے کافی ثبوت عموماً موجود نہیں ہوتا، اس لئے ایسی مثالیں بھی اِکادُکا ہیں ، ورنہ۹۹ فیصد مقدمات میں یہ ہوتا ہے کہ اگرچہ عدالت کو اس بات پراطمینان نہیں ہوتا کہ مرد کی طرف سے جبر ہوا ہے، لیکن چونکہ عورت کی رضامندی کا کافی ثبو ت بھی موجود نہیں ہوتا، اس لئے ایسی صورت میں بھی عورت کو شک کا فائدہ دے کرچھوڑ دیا جاتاہے۔ حدود آرڈیننس کے تحت پچھلے ۲۷ سال میں جو مقدمات ہوئے ہیں ، ان کا جائزہ لے کر اس بات کی تصدیق آسانی سے کی جاسکتی ہے۔ میرے علاوہ جن جج صاحبان نے یہ مقدمات سنے |