Maktaba Wahhabi

65 - 80
ہیں اُن سب کا تاثر بھی میں نے ہمیشہ یہی پایا کہ اس قسم کے مقدمات میں جہاں عورت کا کردار مشکوک ہو، تب بھی عورتوں کو سزا نہیں ہوتی، صرف مرد کو سزا ہوتی ہے۔ چونکہ حدود آرڈیننس کے نفاذ کے وقت ہی سے یہ شور بکثرت مچتا رہاہے کہ اس کے ذریعے بے گناہ عورتوں کو سزا ہورہی ہے، اس لئے ایک امریکی سکالر چارلس کینیڈی یہ شور سن کر ان مقدمات کا سروے کرنے کے لئے پاکستان آیا، اس نے حدود آرڈیننس کے مقدمات کا جائزہ لے کر اعداد وشمار جمع کئے اور اپنی تحقیق کے نتائج ایک رپورٹ میں پیش کئے جو شائع ہوچکی ہے۔ اس رپورٹ کے نتائج بھی مذکور بالا حقائق کے عین مطابق ہیں ۔ لکھتا ہے: "Women fearing conviction under section 10(2) frequently bring charges of rape under 10(3) against their alleged partners. The FSC finding no circumstantial evidence to support the latter charge, convict the male accused under section 10(2) the women is exonerated of any wrong doing due to reasonable doubt, rule." (Charles Kennedy: the status of women in Pakistan in Islamization of Laws. p74) ’’جن عورتوں کو دفعہ ۱۰(۲) کے تحت (زنابالرضا کے جرم میں ) سزا یاب ہونے کا اندیشہ ہوتاہے، وہ اپنے مبینہ شریک ِجرم کے خلاف دفعہ ۱۰(۳) کے تحت (زنا بالجبر کا )الزام لے کر آجاتی ہیں ۔ فیڈرل شریعت کورٹ کو چونکہ کوئی ایسی قرائنی شہادت نہیں ملتی جو زنا بالجبر کے الزام کو ثابت کرسکے، اس لئے وہ مرد ملزم کو دفعہ۱۰(۲) کے تحت (زنا بالرضا) کی سزا دے دیتا ہے… اور عورت ’شک کے فائدے‘ والے قاعدے کی بنا پر اپنی ہر غلط کاری کی سزا سے چھوٹ جاتی ہے۔‘‘ یہ ایک غیر جانبدار غیر مسلم اسکالر کامشاہدہ ہے جسے حدودآرڈیننس سے کوئی ہمدردی نہیں ہے، اور ان عورتوں سے متعلق ہے جنہوں نے بظاہر حالات رضامندی سے غلط کاری کا ارتکاب کیا، اور گھر والوں کے دباؤ میں آکر اپنے آشنا کے خلاف زنا بالجبر کا مقدمہ درج کرایا، اُن سے چار گواہوں کانہیں ، قرائنی شہادت (Circumstantial evidence)کا مطالبہ کیا گیا، اور وہ قرائنی شہادت بھی ایسی پیش نہ کرسکیں جس سے جبر کا عنصر ثابت ہوسکے۔ اس کے باوجود سزا صرف مرد کو ہوئی، اور شک کے فائدے کی وجہ سے اس صورت میں بھی ان کو کوئی سزا
Flag Counter