کے لوگ محروم رہیں گے۔ اب زنا اور قذف کی اصلی سزائیں جو اللہ نے مقرر کی ہیں ،بدلنے والے سوچ لیں کہ وہ ان میں تخفیف کرکے مجرموں اور اہل زمین پر احسان کررہے ہیں یا ان پر ظلم کررہے ہیں ؟ ظاہر بات ہے کہ یہ سراسر اُن پر ظلم ہے کہ دنیوی سزابھگتنے کے باوجود بارگاہِ الٰہی میں وہ مجرم کے مجرم اور روسیاہ ہی رہیں گے اورپورے کا پورا ملک دنیوی خیروبرکت سے بھی محروم رہے گا۔ ’خواتین ایکٹ‘ کے اصل اغراض ومقاصد علاوہ ازیں سزاؤں میں تخفیف سے جرائم کی حوصلہ شکنی کے بجائے حوصلہ افزائی ہوتی ہے اور ہمارے خیال میں ’خواتین ایکٹ‘ سے اصل مقصود یہی ہے۔ ہمارے صدر صاحب اوّل روز سے جس ’روشن خیالی‘ کا اظہار کررہے ہیں ، زیربحث قانون بھی ان کی اسی ’روشن خیالی‘ کا ایک مظہر ہے۔ اس ترمیمی قانون کے ذریعے سے مغرب اسلامی ملکوں میں جو کچھ کرناچاہتا ہے، اس کی طرف کافی پیش رفت ہوچکی ہے اور وہ کیا کرنا چاہتا ہے ؟ مغربی تہذیب اور اس کے فلسفے کے مطابق وہ چاہتا ہے کہ مغربی ملکوں کی طرح ٭ اسلامی ممالک میں بھی اخلاقی جرائم عام ہوں ۔ ٭ زنا کاری کی سہولتیں عام ہوں ۔ ٭ خاندانی نظام ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجائے جو ابھی تک بہت حد تک محفوظ ہے۔ ٭ یہاں بھی بن بیاہی (کنواری) ماؤں کا طوفان آجائے۔ اسلامی ملکوں کے مغربی آقا، تہذیبی میدان میں اپنے مشرقی شاگردوں اور ایجنٹوں کے ذریعے سے مذکورہ چاروں مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں اورلمحہ فکریہ یہ ہے کہ زیر بحث قانون میں ایسی ماہرانہ چابک دستی سے کام لیا گیاہے کہ اس ایک تیر سے دو نہیں ، چار شکار ہوں گے یعنی چاروں مقاصد حاصل کرنے کا بندوبست کرلیاگیاہے۔ وہ کس طرح؟ اس کی تفصیل حسب ِذیل ہے : 1. اخلاقی جرائم کی کثرت اور مجرمین کی حوصلہ افزائی:اخلاقی جرائم اس طرح عام ہوں گے کہ اللہ کا خوف تو ویسے ہی تقریباً مفقود ہے جو جرائم کی حوصلہ شکنی میں سب سے زیادہ مؤثر |