سے جب زنا جیسے گناہ کا صدور ہوگیا تو از خود بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوکر بہ اصرار سزا کے ذریعے سے پاک ہونے کا اظہار فرمایا۔ اسی طرح غامدیہ عورت نے بھی آکر خود ہی اعتراف زنا کیا۔ رسالت ِمآب صلی اللہ علیہ وسلم نے حمل کی وجہ سے اسے واپس فرمادیا تو بچہ جننے کے بعد پھر سزا کے لئے حاضر ہوئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پھر واپس کردیا تاکہ ابھی وہ بچے کو دودھ پلائے، جب تیسری مرتبہ حاضر ہوئی تو بچے کے ہاتھ میں روٹی کا ٹکڑا پکڑا کر لائی تاکہ اس دفعہ آپ اسے سزا دیئے بغیر واپس نہ کریں ۔چنانچہ آپ نے اسے سنگسار کروا دیا۔ از خود جرم کا اقرار کرکے سزا کے لئے اتنی بے قراری کا اظہار یوں ہی بلا مقصد نہیں تھا، نہ کسی دماغی خلل اور فتور کا نتیجہ تھا، بلکہ اس کے پیچھے عقیدۂ آخرت کار فرماتھا، اُنہیں یہی فکر تھی کہ کہیں ہماری آخرت برباد نہ ہوجائے۔دنیا کی یہ سزا (سنگساری) بھی اگرچہ بڑی سخت ہے لیکن آخرت کی سزا کے مقابلے میں کچھ نہیں ۔ اس سے معلوم ہوا کہ اسلام نے جو سزائیں مقرر کی ہیں ، وہ ان گناہوں کا کفارہ ہیں جن کی وہ سزائیں ہیں ۔ ان سزاؤں کے بعد انسان اس گناہ سے پاک ہوجاتا ہے۔ ان سزاؤں کو خوش دلی سے قبول اور گوارا کرلینا، ایسی سچی اور خالص توبہ ہے کہ اسے اگر ایک پوری بستی پر تقسیم کردیاجائے تو سب کی مغفرت کے لئے کافی ہوجائے۔ مذکورہ صحابی اور صحابیہ کا بجا طور پر یہی عقیدہ تھاکہ اگر دنیاکی یہ سزا ہم گوارا کرلیں گے تو آخرت کی سزا سے ہم محفوظ ہوجائیں گے۔ رضي ﷲعنہم وأرضاھم علاوہ ازیں اللہ کی کسی حد کا زمین پر نافذ کرنا اہل زمین کے لئے چالیس دن کی بارش سے زیادہ خیر وبرکت کا باعث ہے ، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ((إقامۃ حد بأرض خیر لأھلھا من مطر أربعین لیلۃ)) (سنن نسائی: رقم۴۹۰۹) اس کا مطلب یہ ہوا کہ حدود ہی وہ بابرکت سزائیں ہیں جن سے انسان پاک بھی ہوجاتا ہے اور اُخروی زندگی میں اُس گناہ کے عذاب سے محفوظ بھی ہوجاتا ہے اور اس کا نفاذ دنیوی خیروبرکت کا باعث بھی ہے، لیکن اگر ان حدود کودوسری سزاؤں میں بدل دیاجائے تو اس کے صاف معنی یہ ہوں گے کہ سزا پانے والا دنیوی عدالت میں تو سرخرو ہوجائے گا ،لیکن آخرت کی اصل عدالت میں وہ بدستور مجرم ہی رہے گا۔ علاوہ ازیں دنیوی خیروبرکت سے بھی اس علاقے |