’’جو ہدایت اور علم اللہ تعالیٰ نے مجھے عطا کرکے مبعوث فرمایا ہے، اس کی مثال اس بارش کی ہے جو زمین پر برسے، تو زمین اچھی اور زرخیز ہوتی ہے، وہ پانی کو پی لیتی ہے اور گھاس اور سبزہ خوب اُگاتی ہے اور جو زمین سخت ہوتی ہے وہ پانی کو روک لیتی ہے پھر اللہ تعالیٰ اس سے لوگوں کو فائدہ پہنچاتا ہے۔ لوگ اس کو پیتے ہیں ، اور اپنے مویشیوں کوپلاتے ہیں اور زراعت کو سیراب کرتے ہیں ۔ اور کچھ بارش زمین کے دوسرے حصے کو پہنچی کہ جو بالکل چٹیل میدان ہے، جو نہ پانی کو روکتا ہے اور نہ ہی سبزہ اُگاتا ہے۔فذلک مثل من فقہ في دین اللّٰه ونَفَعَہٗ ما بَعَثَني اللّٰه بہ فَعَلِمَ وَعَلَّمَ پہلی مثال اس شخص کی ہے جو اللہ کے دین میں فقیہ ہوجائے اور جو چیز اللہ تعالیٰ نے مجھے دے کر مبعوث فرمایا ہے، وہ اس کا فائدہ پہنچائے،اسے پڑھے اور دوسروں کو پڑھائے اور دوسری مثال ہے اس شخص کی ہے جس سے اس کی طرف سر تک نہ اُٹھایا اور اللہ تعالی کی اس ہدایت کو جس کے ساتھ میں بھیجا گیا ہوں ، قبول نہ کیا۔‘‘[1] 9. بلاشک علم کا حصول جنت کا راستہ ہے اور اس کی دلیل حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی یہ حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ((ومن سلک طریقا یطلب فیہ علمًا سھَّل اللّٰه لہ طریقًا إلی الجنۃ)) [2] ’’ جو شخص علم کی جستجو میں کسی راستے پر چلا تو اللہ تعالیٰ اس کے بدلے، اس کے لئے جنت کی طرف جانے کا راستہ آسان کردیتا ہے۔‘‘ 10. اور اسی ضمن میں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں آیا ہے۔ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے: ((من یرد اللّٰه بہ خیرًا یفقّھہ في الدین )) [3] ’’جس شخص سے اللہ تعالیٰ بھلائی کا ارادہ کرتاہے تو اسے دین میں سمجھ دے دیتا ہے۔‘‘ مطلب یہ کہ اسے اپنے دین کا عالم و فقیہ بنا دیتا ہے اور یہاں دین میں فقہ سے مراد، صرف وہی ’علم فقہ‘ نہیں جو اہل علم کے ہاں علم فقہ میں مخصوص شرعی و عملی احکام ہیں بلکہ یہاں اس کا مفہوم وسیع تر ہے جس سے مراد علم توحید، عقائداور اللہ عزوجل کی شریعت ِطاہرہ سے |