((من یرد اللّٰه بہ خیرا یفقھہ في الدین وإنما أنا قاسم و اللّٰه یعطي ولن تزال ہذہ الأمۃ قائمۃ علی أمر اللّٰه لا یضرھم من خالفھم حتی یأتی أمرﷲ)) [1] ’’جس شخص کے ساتھ اللہ عزوجل بھلائی کاارادہ کرتے ہیں تو اُسے دین میں سمجھ دے دیتے ہیں اور میں تو صرف تقسیم کرنے والا ہوں اور اللہ جل شانہ عطا کرنے والے ہیں ، اور اس اُمت (کی ایک جماعت) ہمیشہ اللہ کے دین پر ثابت قدم رہے گی اور قیامت بپا ہونے تک کوئی ان کامخالف ان کو تکلیف (یا نقصان) نہیں دے سکے گا۔‘‘ امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ اس جماعت کے بارے میں کہتے ہیں کہ ’’اگر یہ اہل حدیث نہیں تو پھر میں نہیں جانتا کہ ان کے علاوہ اور کون لوگ ہیں ۔‘‘ (صحیح سنن ابن ما جہ، زیر حدیث نمبر۶) قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ کا کہنا ہے: ان سے امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کی مراد اہل سنت اور وہ لوگ ہیں جو اہل حدیث کے مذہب پرہیں : ومن یعتقد مذہب أھل الحدیث (شرح نووی : ۶/۴۰۰) 7. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں میں سے دو نعمتوں کے علاوہ کسی کو کسی شخص پررشک کرنے کی ترغیب نہیں دی اور وہ قابل رشک دو نعمتیں یہ ہیں : ۱) علم حاصل کرنا اور اس کے مطابق اس پر عمل کرنا۔ ۲) تاجر شخص جو اپنے مال کو دین اسلام کی خدمت میں خرچ کرتا ہے۔ اور اس کی دلیل حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی یہ حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ((لا حسد إلا في اثنتین رجل آتاہ اللّٰه مالا فسلطہ علی ہلکتہ في الحق ورجل آتاہ اللّٰه الحکمۃ فھو یقضي بھا ویُعلِّمھا)) [2] ’’ دو قسم کے آدمی قابل رشک ہیں ، ایک وہ آدمی جسے اللہ نے مال سے نوازا اور وہ اسے حق کی راہ میں لٹاتا ہے، اور دوسرا وہ شخص جسے اللہ تعالیٰ نے حکمت (دینی علم) سے بہرہ ور فرمایا اور وہ اسی کے ساتھ فیصلے کرتا اور لوگوں کو اس کی تعلیم دیتا ہے۔‘‘ 8. امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی صحیح میں حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی مرفوع حدیث ذکر کی ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: |