4. عالم کا شمار حق پر گواہی دینے والوں ہوتا ہے: جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿شَھِدَ اللّٰه اَنَّہُ لَا اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ وَالْمَلٰئِکَۃُ وَاُولُوا الْعِلْمِ قَآئِمًا بِالْقِسْطِ﴾ ’’اللہ نے خود بھی اس بات کی گواہی دی ہے کہ کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں ، اور فرشتوں نے بھی اور اہل علم نے بھی راستی اور انصاف کے ساتھ یہی گواہی دی ہے۔‘‘(آل عمران:۱۸) تو کیا اللہ تعالیٰ نے آیت میں ﴿اولوا المال﴾ یعنی مال و دولت والوں کاذکر کیا ہے؟ نہیں ، بلکہ اس کے بجائے یہ الفاظ ہیں ﴿وَاُولُوا الْعِلْمِ قَآئِمًا بِالْقِسْطِ﴾ ’’ اہل علم نے بھی انصاف کے ساتھ اللہ کی واحدانیت کی گواہی دی ہے۔‘‘ تو اے طالب ِعلم ! تیرے شرف و کمال کے لئے یہی بات کافی ہے کہ تیراشمار اُن ہستیوں میں ہوتا ہے جوفرشتوں کی رفاقت میں اللہ عزوجل کی یکتائی کی گواہی دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں ۔ 5. علماکا شمار مؤمنوں کے والیوں (ذمہ داروں ) میں ہوتا ہے:اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کواپنے والیوں (ذمہ داروں ) کی اطاعت کا ان الفاظ میں حکم دیا ہے : ﴿یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ امَنُوْا اَطِیْعُوا اللّٰه وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُوْلِی الاَمْرِ مِنْکُمْ﴾ ’’اے اہل ایمان! اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرو اور اُن والیوں کی بھی جو تم میں سے ہیں ۔‘‘(النساء:۵۹) یہاں آیت ِکریمہ میں ’اہل ایمان کے والیوں ‘ میں ، اُمرا، حکام، علماے کرام اور علم کے طلبا سب شامل ہیں ۔ اہل علم کی ولایت (سرپرستی) یہ ہے کہ وہ اللہ عزوجل کی شریعت ِطاہرہ کو بیان کریں اور لوگوں کو اس کی دعوت دیں ، جبکہ اُمرا و حکام کی ولایت (سرپرستی) سے مراد یہ ہے کہ وہ اللہ جل شانہ کی شریعت ِطاہرہ کو من و عن نافذ کریں اور لوگوں کو اس کاپابند بنائیں ۔ 6. اہل علم ہی اللہ کے دین اور حکم کو قائم و دائم رکھنے والے ہیں :اور ان کا یہ عمل قیامت تک جاری و ساری رہے گا، اس کی دلیل حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے مروی یہ حدیث ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے : |