اہل علم میں ہے تو جان لے کہ تو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا اصل وارث ہے اور یہ فضائل میں سے سب سے بڑی فضیلت ہے۔ 2. علم کو بقا اور مال کو فنا ہے: فقرا صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے ایک جلیل القدر صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہیں ۔ یہاں تک کہ آپ رضی اللہ عنہ بھوک کی شدت سے غشی کی حالت میں نیچے گر پڑتے ہیں ۔ ذرا بتائیے! ہمارے آج کے دور میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا ذکر ِخیر لوگوں کی زبانوں پر جاری وساری ہے کہ نہیں ؟ یقینا بہت زیادہ ہے، اور جو ان کی بیان کردہ احادیث سے فائدہ اُٹھائے گا، اس کا اجروثواب حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو تاقیامت صدقۂ جاریہ کی صورت میں الگ ملے گا۔ تو معلوم ہوا کہ علم باقی رہتا ہے جبکہ مال فنا ہوجاتاہے۔ اے علم کے طالب! علم کی دولت سے وابستہ رہ، اس بارے میں صحیح حدیث سے ثابت ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ((إذا مات الإنسان انقطع عملہ إلا من ثلاث: صدقۃ جاریۃ او عمل ینتفع بہ أو ولد صالح یدعولہ. )) [1] ’’ جب انسان مر جاتا ہے تو تین قسم کے اعمال کے سوا اس کے سارے عمل منقطع ہو جاتے ہیں : ایک صدقۂ جاریہ کی صورت میں کوئی عمل، دوسرا کوئی ایسا علمی سرمایہ جس سے فائدہ اُٹھایا جائے اور تیسرا نیک اولاد جو اس کے لئے دعاے خیر کرے۔‘‘ 3. عالم کو علم کی حفاظت میں تھکاوٹ کا سامنا نہیں کرنا پڑتا:اور یہ اس لئے کہ جب آپ کو اللہ تعالیٰ نے علم کی سعادت سے بہرہ ور فرما دیا تو چونکہ اس کی اصل جگہ انسان کادل و دماغ ہے۔ لہٰذا اس کے لئے کسی صندوق یا چابی وغیرہ کی ضرورت نہیں ، وہ انسان کے دل و دماغ میں پہلے سے محفوظ ہوتا ہے، بلکہ اس سے بڑھ کر وہ آپ کا محافظ ہے اور وہ اللہ عزوجل کے حکم سے آپ کو ہر قسم کے خطرے سے بچاتا ہے۔ علم آپ کی پاسبانی کرتا ہے جبکہ مال کی آپ کو ہر لحظہ حفاظت کرنا پڑتی ہے، آپ اُسے تالے لگے صندوقوں میں بند کرکے رکھتے ہیں مگر اس کے باوجود مطمئن نہیں ہوپاتے۔ مال خرچ کرنے سے کم ہوتا ہے جبکہ علم کو جتنا سکھایا جائے یعنی صرف کیا جائے، اس میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ |