لئے وہ ’عمل ‘ کیا جاتا ہے، اس وقت ہم پر لازم ہے کہ ہم اس بڑے اور حساس معاملے میں خبرداراور ہوشیار رہیں ، اور وہ یہ ہے کہ ہم عبادت کرتے وقت یہ بات اچھی طرح سے اپنے مدنظر رکھیں کہ ہم اللہ تعالیٰ کا یہ حکم صرف اور صرف اسی ذات کے لئے خالص ہوکر اداکررہے ہیں اور ساتھ ہی اپنے آپ کو یہ باور کراتے ہوئے کہ چونکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ادا فرمایا ہے، لہٰذا ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع (اور پیروی) میں اسے سرانجام دے رہے ہیں ۔ اس لئے کہ اجروثواب کی خاطر کئے گئے عمل کے صحیح اور قبول ہونے کی شروط میں سے درج ذیل دو شرطیں قابل ذکر ہیں : 1. اخلاصِ نیت 2. متابعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم (اطاعت و پیروی) اور یہی وہ دو شرطیں ہیں جن کی موجودگی میں شہادَتین ((أشھد أن لا إلہ إلا اللّٰه وأن محمّدًا رسول ﷲ))’’میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور یہ بھی کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں ۔‘‘پرعمل ممکن ہے۔ یہاں سے ہم دوبارہ اپنے موضوع ’فضائل علم‘ کی جانب آتے ہیں ، جیساکہ یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ علم کی بدولت انسان فہم اور بصیرت کی بنا پر اپنے ربّ کی عبادت کرتا ہے، ایسے میں اس کادل بندگی ٔربّ سے سرشار اور اس کے انوار سے منور ہوتا ہے اور عبادت گزار یہ سمجھتا ہے کہ وہ ایک عادت نہیں بلکہ علم پر مبنی عبادت کا عمل اداکررہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ جب انسان اس جذبے اور کیفیت میں نماز اداکرے گا، تو دورانِ عبادت اس کے دل و دماغ میں اللہ جل شانہ کا یہ فرمان موجزن ہوگا کہ ﴿اِنَّ الصَّلٰوۃَ تَنْھٰی عَنِ الْفَحْشَائِ وَالْمُنْکَرِ﴾ (العنکبوت:۴۵) ’’بے شک نماز بے حیائی اور بُرائی کے کاموں سے روکتی ہے۔‘‘ ٭ ’فضائل علم ‘ کے بارے میں چند اہم نکات درج ذیل ہیں : 1. علم انبیا علیہم السلام کی وراثت ہے:انبیاے کرام علیہم السلام نے اپنے بعد والوں کو درہم و دینار کانہیں بلکہ علم کا وارث بنایا ہے۔ تو جس شخص نے علم حاصل کیا، اس نے انبیاکی وراثت سے وافر حصہ پالیا۔ اے میرے مخاطب! تو اس وقت پندرہویں صدی ہجری میں ہے، اگر تیرا شمار |