Maktaba Wahhabi

50 - 80
وبصیرت پر اپنے ربّ کی عبادت کی۔ اگرچہ ظاہری طور پر دنوں کا عمل ایک جیسا ہے مگر دونوں حقیقت میں برابر نہیں ، کیونکہ ایک کا عمل علم و بصیرت کی بنیاد پر ہے اور وہ اپنے اس عمل کی بنا پراللہ عزوجل سے ثواب کی اُمید رکھتا اور آخرت میں حساب و کتاب سے ڈرتا بھی ہے اور ساتھ ہی وہ جانتا ہے کہ وہ اس عمل کی بجاآوری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی پیروی بھی کررہا ہے۔ اورہم اسی نکتہ پر چند لمحے ٹھہرتے ہوئے یہ پوچھنا چاہیں گے کہ کیا وضو کرتے وقت ہمیں اس بات کاادراک ہوتا ہے کہ ہم حقیقت میں اللہ تعالیٰ کے حکم پرعمل پیرا ہیں ۔ جیساکہ قرآن حکیم میں اللہ پاک کا ارشاد ہے : ﴿یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا اِذَا قُمْتُمْ اِلَی الصَّلٰوۃِ فَاغْسِلُوا وُجُوْھَکُمْ وَاَیْدِیْکُمْ اِلَی الْمَرَافِقِ وَامْسَحُوْا بِرُئُ وْسِکُمْ وَاَرْجُلَکُمْ اِلَی الْکَعْبَیْنِ﴾(المائدۃ:۶) ’’اے اہل ایمان! جب نماز ادا کرنے کے لئے اُٹھو تو پہلے اپنے منہ اور کہنیوں تک ہاتھوں کو دھو لو اور اپنے سروں کا بھی مسح کرلو اور اپنے پاؤں ٹخنوں تک دھولیا کرو۔‘‘ توکیا ایک انسان وضو کرتے وقت یہ آیت ِکریمہ ذہن میں رکھتے ہوئے جانتا ہوتا ہے کہ وہ حقیقت میں اللہ تعالیٰ کے حکم کی بجاآوری کررہا ہے؟ کیاوہ یہ شعور رکھتا ہے کہ یہ طریقۂ وضو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے اور وہ یہ وضو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی میں کررہا ہے؟ اس سوال کا جواب بھی یقینا ’ہاں ‘ میں ہو گا اور حقیقت بھی یہی ہے کہ ہم میں سے کچھ لوگ اس بات کو اپنے سامنے رکھتے ہیں ۔ لہٰذا عبادات کی بجا آوری میں ہم پرواجب ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کا حکم سمجھتے ہوئے اُنہیں ادا کریں تاکہ ایک تو ان عبادات میں ہماری نیک نیتی اور خلوص واضح اور ثابت ہوسکے، اور دوسرے یہ کہ ہم ان عبادات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی میں بجالائیں ۔ ہم یہ جانتے ہیں کہ نیت (دل کا ارادہ) وضو کی شروط میں سے ہے۔ لیکن بسااوقات اس نیت سے مراد ’عمل کی نیت‘ ہوتی ہے اور یہی وہ قسم ہے جس کے بارے میں ’علم فقہ‘ میں بحث کی جاتی ہے۔ اور بسا اوقات ’نیت‘ سے مراد عمل کی نیت نہیں بلکہ وہ ’ہستی‘ ہوتی ہے جس کے
Flag Counter