Maktaba Wahhabi

49 - 80
’’تم میں جو لوگ ایمان لائے ہیں اور جو علم دیے گئے،اللہ تعالیٰ انکے درجات بلند کرے گا۔‘‘ یہی وجہ ہے کہ ہم اہل علم کو ہی قابل ستائش پاتے ہیں ، اور جب بھی ان کا کہیں تذکرہ ہوتا ہے ، لوگ ان کی تعریف کرتے ہیں ۔ یہ تو ہوا اُن کا اس دنیا میں بلند مقام اور مرتبہ، جبکہ آخرت میں وہ اللہ کے دین کی طرف دعوت وارشاد اور نیک اعمال کے مطابق بلند مراتب سے بہرہ ور ہوں گے۔ یقیناً حقیقی عبادت گزار بندہ وہ ہے جو شعور رکھتے ہوئے علم و آگہی سے اس حال میں اپنے ربّ کی عبادت کرتا ہے کہ حق بات اس سے چہار سو پھیلتی جاتی ہے اور یہی اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقۂ بندگی تھا، اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ﴿قُلْ ھٰذِہٖ سَبِیْلِیْ اَدْعُوا اِلَی اللّٰه عَلي بَصِیْرَۃٍ اَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِیْ وَسُبْحٰنَ اللّٰه وَمَا اَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ﴾ (یوسف:۱۰۸) ’’(اے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم ) آپ ان سے کہہ دیجئے! میرا راستہ یہی ہے کہ میں اللہ کی طرف بلاتا ہوں ، میں خود بھی اس راہ کو پوری روشنی میں دیکھ رہا ہوں اور میرے پیروکار بھی (اسی راہ پر گامزن ہیں ) اللہ پاک ہے، اور مشرکوں سے ہماراکوئی واسطہ نہیں ۔‘‘ لہٰذا وہ انسان جو جانتے بوجھتے اور یہ شعور رکھتے ہوئے پاک اور صاف ہوتا ہے کہ وہ ایک شرعی کام کو شرعی طریقے کے مطابق انجام دے رہا ہے، کیا یہ اُس شخص کی طرح ہوسکتا ہے جو یہی پاکیزگی ٔ علم وعمل محض روایتی طور پر اس لئے حاصل کرتا ہو کہ اس نے اپنے ماں باپ کو ایسا کرتے دیکھا ہے؟ ان دونوں میں کون سا شخص عبادت کا حق ادا کرنے میں آگے ہے؟ آیا وہ شخص جو اس لئے پاک صاف ہوا کہ اس نے یہ اچھی طرح جان لیا کہ طہارت حاصل کرنے کا حکم اللہ تعالیٰ نے دیا ہے اور یہی طہارت اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ اور حکم بھی ہے۔ لہٰذا وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی بجا آوری اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ِطاہرہ کی پیروی میں طہارت حاصل کرتا ہے… یا دوسرا وہ شخص جو محض اپنے ہاں جاری رسم پوری کرنے کے لئے پاکیزگی اور صفائی پر کاربند ہے؟ تو جواب واضح ہے کہ پہلا شخص ہی اپنے عمل میں درست ہے جس نے علم
Flag Counter