رکھ لے اور اگر حیض کا خون دوبارہ آجائے تو روزہ توڑ دے۔ اگر کسی عورت نے رات سے روزہ رکھا ہو اور مغرب ہونے تک خون نہ آیا ہو تو اس کا روزہ صحیح ہوگا۔ اسی طرح جس عورت نے خون آنے کا احساس کیا ہو، لیکن خون مغرب کے بعد ہی باہر نکلا تو اس دن کا روزہ صحیح سمجھا جائے گا۔ حائضہ اور نفاس والی عورت کا خون اگر رات کو ہیختم ہوگیا اور اس نے رات ہی میں روزہ کی نیت کرلی لیکن غسل فجر کے بعد کیا تو متفقہ طور پر تمام علما کے نزدیک اس کا روزہ صحیح ہوگا۔ 59. جس عورت کو معلوم ہو کہ اس کی ماہواری کل سے شروع ہوگی پھر بھی وہ نیت کرے اور روزہ رکھے۔ اورجب تک خون نہ آجائے روزہ نہ چھوڑے۔ 60. بہتر یہ ہے کہ حائضہ عورت اپنی فطرت پر باقی رہے، اور اللہ نے اس کے لئے جو مقدر کیا ہے، اس پر راضی رہے۔ خون روکنے والی دوائیں استعمال نہ کرے، حالت ِحیض میں روزہ چھوڑ دے اور پھر قضا کرے، اسی طرح اُمہات المؤمنین اور سلف کی بیویاں کیا کرتی تھیں لیکن اگر اس نے کوئی چیز استعمال کی جس سے خون رک گیا تو روزہ رکھ سکتی ہے اور اس کا یہ روزہ صحیح ہوگا۔ 61. اگر عورت کا حمل بچے کی شکل و صورت کی تخلیق شروع ہونے کے بعد ساقط ہوجائے، مثلاً اعضاء کی بناوٹ، سر، ہاتھ وغیرہ ظاہر ہورہے ہوں تو وہ نفاس والی مانی جائے گی۔ ایسی عورت روزہ نہ رکھے بلکہ بعد میں قضا کرے، اور اگرایسا نہ ہو تو استحاضہ شمار کیا جائے گا۔ اگر وہ عورت روزہ رکھنے کی طاقت رکھتی ہو تو روزہ رکھے۔ نفاس والی عورت اگر چالیس دن سے قبل پاک ہوجائے توروزہ رکھے اور نماز کے لئے غسل بھی کرے، اور اگر چالیس دن کے بعد بھی خون جاری رہا تو روزہ کی نیت کرے گی اور غسل کرلے اور اس کا یہ خون استحاضہ شمار ہوگا، اور اگر اس کی عادت کے مطابق حیض کے دن پڑ جائیں تو حیض سمجھا جائے گا۔ 62. استحاضہ کے خون سے روزہ پرکوئی اثر نہیں پڑتا۔ 63. صحیح بات یہ ہے کہ حاملہ اور دودھ پلانے والی عورت کو مریض پر قیاس کیا جائے گا، ان |