بالآخر وہ وقت آہی گیا کہ علم و عمل کا یہ آفتاب سارے عالم میں اپنی تابانیاں بکھیرنے کے بعد بھارت کی سرزمین میں غروب ہوگیا۔ غفرﷲ لہ ورحمہ واقعہ یہ ہے کہ ان کی وفات سے تدریس و افتا کی ایک عظیم مسند خالی ہوگئی ہے، علم و تحقیق کا ایک باب بند ہوگیا ہے، اَسلاف کی علمی و اخلاقی روایات کا حامل ایک حسین پیکر ہمیشہ کے لئے آنکھوں سے اوجھل ہوگیا ہے، حلم و تدبر کا ایک عظیم مرقع پیوند ِخاک ہوگیا اور پاک و ہند کی جماعت ِاہل حدیث اپنے گوہرشب چراغ سے محروم ہوگئی۔ بقول میرؔ وہ ایسے عظیم انسان تھے جس کی بابت اس نے کہا تھا : مت سہل ہمیں جانو، پھرتا ہے فلک برسوں تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں یقینا وہ اپنے علمی کارناموں کی بدولت ہمیشہ زندہ رہیں گے : ہرگز نہ میرد آنکہ دلش زندہ شد بعشق ثبت است بر جریدۂ عالم دوام ما مولانا مرحوم کی چنددیگر تصانیف 1. شرح أزہار العرب(عربی): أزہار العرب علامہ محمد سورتی کاجمع کردہ نفیس عربی اشعار پرمشتمل ایک منتخب اور ممتاز مجموعہ ہے۔ یہ شرح ۱۹۶۳ء میں لکھی گئی مگر قدرے ناقص رہی او رطبع نہیں کرائی جاسکی۔ 2. المصابیح في مسئلۃ التراویح للسیوطی کا اُردو ترجمہ۱۹۶۳ء 3. ترجمہ الکلم الطیب لابن تیمیۃ ۱۹۶۶ء 4. ترجمہ کتاب الأربعین للنووي ۱۹۶۹ء مع مختصر تعلیق 5. صحف ِیہود و نصاریٰ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق بشارتیں (اُردو) ۱۹۷۰ء 6. تذکرہ شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب ۱۹۷۲ء ۔ یہ اصلاً محکمہ شرعیہ قطر کے قاضی شیخ احمد بن حجر کی عربی تالیف کا ترجمہ ہے لیکن اس میں کسی قدر ترمیم و اضافہ کیا گیا ہے۔ |