Maktaba Wahhabi

69 - 79
زنا بالجبر کی سزا زنا بالجبر کے حوالے سے حدود آرڈیننس کے جس نکتہ کو سب سے اعتراض کا نشانہ بنایا گیا وہ یہ تھا کہ کوئی عورت اگر چار گواہ پیش نہ کرسکے تو خود اس زیادتی کی شکار عورت کو سزا کا نشانہ بننا پڑتا ہے۔ جبکہ اس اعتراض کی حیثیت یکطرفہ پروپیگنڈے سے زیادہ نہیں ہے کیونکہ اوّل تو حد زنا آرڈیننس میں زنا کی جو تعریف کی گئی ہے، اس کی رو سے زنا بالجبر کی شکار عورت زنا کی تعریف اور جرم سے ہی خارج ہے، حدزنا آرڈیننس کی دفعہ ۴ میں زنا کی تعریف ملاحظہ ہو: ’’زنا: ایک مرد اور ایک عورت جو جائز طور پر آپس میں شادی شدہ نہیں ہیں ، زنا کے مرتکب ہوں گے، اگر وہ بلاجبر واکراہ ایک دوسرے کے ساتھ مباشرت کرتے ہیں ۔‘‘ اس تعریف کے خط کشیدہ الفاظ سے ہی یہ پتہ چلتا ہے کہ جو مرد یا عورت جبراً زنا کا شکار ہوئے ہیں ، ان کے فعل کو قانوناً ’زنا‘ قرار نہیں دیا جاسکتاکجا یہ کہ اُنہیں زنا کی سزا دی جائے۔ ثانیاً: حد زنا آرڈیننس میں زنا بالجبر کی دفعہ اُسی وقت لاگو ہوتی تھی جب چارگواہ یا اعتراف موجود نہ ہو، جیسا کہ اُس قانون کی دفعہ نمبر ۱۰ کی پہلی شق میں یہ الفاظ موجود ہیں کہ ’’ثبوت کی وہ [شرعی] صورتیں جو دفعہ نمبر ۸ میں دی گئی ہیں ، موجود نہ ہوں …‘‘ تب زنا بالجبرکی سزا جاری کی جائے گی۔گویا زنا بالجبر میں محض اکیلی گواہی یا واقعاتی شہادتیں بھی کافی تھیں ، جیسا کہ بعد ازاں کراچی ہائیکورٹ اور وفاقی شرعی عدالت کے کئی ایک فیصلوں میں اس نکتہ کومزید نکھار کربیان بھی کردیا گیا۔تفصیل کے لئے ’محدث‘ کا شمارہ اگست دیکھیں ۔ اورسب سے بڑھ کر یہ کہ حدزنا آرڈیننس کی ۲۷ سالہ تاریخ میں ایک واقعہ بھی ایسا موجود نہیں جس میں زنا بالجبر کی چار گواہیاں پوری نہ کرنے کی بنا پر عورت کو خود سزا سے دوچار ہونا پڑا ہو جیسا کہ جسٹس مولانا تقی عثمانی اپنی تقاریر اور کتب ومقالات میں کئی بار اس کا اظہار کرچکے ہیں ۔ یہ توتھا حد زنا آرڈیننس کا قانون، اب ملاحظہ کریں نیا قانون… کہ آیا اس کی سزا میں عورت کو رعایت دی گئی ہے یا پہلے سے بھی زیادہ مشکل میں ڈال دیا گیا ہے؟ سابقہ قانون کی رو سے پولیس زنا بالجبر کے وقوعہ کو رپورٹ کرتی اور اس کے متعلق تفتیشی مراحل انجام دیتی۔ اب نئے قانون کی رو سے زنا بالجبر کی شکار عورت کے لئے یہ لازمی قرار دیا گیا ہے کہ وہ سیشن کورٹ میں دو گواہوں کو لے کر جائے،اور وہاں ان کی گواہی کی بنا پر مجرمان
Flag Counter