’’جب کوئی شوہر اپنی بیوی کو اپنے بستر پر بلائے اور وہ انکار کردے اور شوہر اس سے ناراضی کی حالت میں رات بسرکرے تو فرشتے ایسی بیوی پر صبح ہونے تک لعنتیں بھیجتے رہتے ہیں ۔‘‘ 3. دونوں قوانین کے متن ایک بار پھر ملاحظہ کریں ، حد زنا آرڈیننس والے قانون میں زنا بالجبر کی چار صورتیں رکھی گئی ہیں ، اس کے بعد دیگر تفصیلات شروع ہوجاتی ہیں جبکہ ترمیم شدہ قانون میں اس کی پانچویں صورت بھی پیش کی گئی ہے جو سابقہ قانون پر ایک اضافہ ہے۔ اس اضافی صورت کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ۱۶ برس تک کی ہر لڑکی کا ہر جنسی فعل زنابالجبر قرار پائے گا یعنی وہ لڑکی اس کی سزا سے مستثنیٰ ہوگی۔ یہاں بھی صنفی امتیاز برتا جارہا ہے کہ مجموعہ تعزیرات پاکستان کی دفعہ نمبر۸۳ کی رو سے ۷ تا ۱۲ برس کا لڑکا فوجداری جرائم کی سزا سے مستثنیٰ ہے،جبکہ اس ترمیم کے بعد ۱۴ سال کا لڑکا تو جنسی فعل کی سزا پائے گا لیکن لڑکی اس کی سزا سے مستثنیٰ ہوگی۔ یوں بھی فعل زنا کو دیگر جرائم سے کونسا امتیاز حاصل ہے کہ اس کے لئے سزا کی عمر میں اضافہ کردیا جائے؟ واضح بات ہے کہ اس سے جرم کے فروغ کی راہ ہموار کی جارہی ہے! اس شق کا نتیجہ یہ بھی نکلے گاکہ کوئی مرد اپنی بیوی کے بالغ ہوجانے کے بعد، ۱۶ برس سے قبل اس سے جماع کرتا ہے تو وہ بھی زنا بالجبر کی سزا کا مرتکب ہوگا۔ دوسری طرف یہ امر شک وشبہ سے بالا ہے کہ لڑکیاں ۱۶ برس سے پہلے ہی بالغ ہوجاتی ہیں ، اور اسلام کی رو سے بلوغت کے بعد نہ صرف یہ کہ وہ جرم پر گرفت سے محفوظ نہیں بلکہ شادی کے بعد ان سے جماع بھی کیا جاسکتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے جب نکاح کیا تو اُمّ المومنین کی عمر ۹برس تھی جیسا کہ صحیح بخاری میں موجود ہے : عن عائشۃ … فأسلمني إلیہ وأنا یومئذ بنت تسع سنین (حدیث نمبر۳۸۹۴) ’’عورتوں نے بناؤ سنگھار کرکے مجھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس رخصت کردیا اور میں ۹ برس کی تھی۔‘‘ ٭ ان مذکورہ بالا تین ترامیم سے بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے کہ ٭ زنا بالجبر کا سابقہ قانون زیادہ بہتر تھا یا ’تحفظ ِخواتین بل‘ کے بعد نیا قانون ؟ ٭ ہر شخص یہ بھی جان سکتا ہے کہ کیا یہ تینوں اقدامات اسلام کے مطابق ہیں یا خلاف؟ ٭ کیا صرف معاملہ اتنا ہی ہے کہ حدود آرڈیننس سے قانون کو نکال کر تعزیرات پاکستان میں ڈالا گیا ہے یا اس کے دیگر مقاصد بھی ہیں ۔ |