کو سزا دلوائے۔ پاکستانی معاشرے کی صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے زنا بالجبر کی شکار عورت کے لئے حصولِ انصاف کا یہ ڈھنگ بالکل نرالابلکہ ناممکن ہے، کیونکہ اوّل تو ایسی زیادتی کی شکار عورت اپنی دادرسی کے لئے عدالتوں کے دھکے نہیں کھاسکتی، اس کے لئے تو وقوعہ کے بعد صبح ہونے کا انتظار کرنا اور ۱۰۰ میل دور سیشن عدالت میں دفتری اوقات میں پہنچناہی کم سوہانِ روح نہیں ، اور جب سیشن کورٹ اس کی درخواست کو قبول کرلے تو ایک دن گزر جانے کے بعد کئی واقعاتی شواہد بھی میسر نہیں رہتے۔ پھرجو مجرم زنا بالجبر کا ارتکاب کرتے ہیں ، ان کے لئے راستے میں ایسے دو گواہوں کو ڈرانا دھمکانا یا انہیں گواہی سے ہی منحرف کردینا قطعاً مشکل نہیں ۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ موجودہ قانون میں زنا بالجبر کی صورت میں عورتوں کے تحفظ کی بجائے اُنہیں مزید مشکلات میں ڈال دیا گیا ہے۔ آخری بات: پھر یہ بات بھی غور طلب ہے کہ حدود قوانین میں ترامیم کے بل کو تحفظ حقوقِ نسواں بل کیونکر قرار دیا جاسکتا ہے۔ یہ بل دراصل زنا کو فروغ دینے اور بدکاری کو عام کرنے کابل ہے۔ اور یہ امر بالکل واضح ہے کہ زنا کا فعل اکیلا شخص نہیں کرتا، بلکہ فریقین اس میں ملوث ہوتے ہیں ، اس اعتبار سے یہ نہ صرف زانیہ بلکہ زانی ہردو کے تحفظ کا بل قرار پاتا ہے۔پھر اسے صرف ’تحفظ حقوقِ نسواں بل‘ کیوں قرار دیا جاسکتا ہے؟ البتہ اگر صنفی حقائق پر نظر رکھی جائے اور زنا کے بعد کے اثرات کو بھی نظر انداز نہ کیا جائے تو یہ خالصتاً بربادیٔ نسواں کا بل قرارپاتا ہے۔ کیونکہ اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ زنامیں زیادہ نقصان مردوں کی بجائے صنف ِنازک کے حصے میں آتا ہے۔ اگر لڑکی کنواری ہو تو اس صورت میں عورت کے لئے اس نقصان کی تلافی ممکن ہی نہیں اور حاملہ ہونے کی صورت میں بھی زنا کے تمامتر نتائج عورت کو ہی بھگتنے پڑتے ہیں ۔ مرد کئی بار بھی زنا کا ارتکاب کرے تو ا س پر اس کا کوئی اثر و نتیجہ ظاہر نہیں ہوتا۔اگر عورت کے ساتھ شوہر موجود نہ ہو تو بچے کے حمل اور پرورش کی ذمہ داری اکیلی ماں کو برداشت کرنا پڑتی ہے، مامتا کے فطری جذبے کے تحت بہت سی مائیں اپنے بچوں کو نظر انداز کرنے پر بھی قادر نہیں ہوتیں ۔ اس اعتبار سے فعل زنا کی ترویج کا آخر کار نقصان طبقہ نسواں کو زیادہ ہے۔ اگر اس بل کو معاشرے کے مجموعی تناظر میں لیا جائے تویہ اسے خواتین کی بے حرمتی کا بل قرار دیا جاسکتا ہے! |