چاہتا ہے انصاف والوں کو۔ اللہ تعالیٰ تو تمہیں منع کرتا ہے ان سے جو تم سے دین پر لڑے اور تمہیں تمہارے گھروں سے نکالا اور تمہارے نکالنے میں شریک ہوئے کہ تم ان سے دوستی کرو اور جوکوئی ان سے دوستی کرے ، سو وہی لوگ گنہگار ہیں ۔‘‘ ٭ فقہ ِاسلامی میں یہ تصریح بھی ہے کہ صدقات ِواجبہ (مثلاً زکوٰۃ ، عشر) کے علاوہ بیت المال کے محاصل کا تعلق جس طرح اسلامی قلمروکی مسلمان رعایا کی ضروریاتِ زندگی سے وابستہ ہے اسی طرح غیر مسلم (ذمی) کی حاجات و ضروریات سے بھی متعلق ہے۔ ٭ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور امام محمد رحمۃ اللہ علیہ نے تو تصریح کردی ہے کہ زکوٰۃ اور عشر کے علاوہ تمام صدقات غیر واجبہ و نافلہ وغیرہ ذمی فقرا کو دیے جاسکتے ہیں حتی کہ صدقاتِ نافلہ سے حربی مستامن کی مدد بھی کی جاسکتی ہے۔ (امام ابویوسف، کتاب الخراج، مطبوعہ سلفیہ قاہرہ ۱۳۴۶ھ: ص۱۲۶) ٭ چنانچہ حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے فقرا اور مساکین میں غیر مسلموں (ذمیوں ) کو بھی شامل کرلیاتھا اور حضرت امام یوسف رحمۃ اللہ علیہ نے فقہ میں اس قول کو سند ٹھہرایا ہے۔ (ابن العابدین رحمۃ اللہ علیہ ، شامی، باب المصرف: ج۳/ص۹۶مطبع میمنیہ، قاہرہ ۱۳۱۸ھ) ٭ ایک مرتبہ حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ ایک مکان پر تشریف لے گئے۔ کیا دیکھتے ہیں کہ ایک بوڑھا نابینا بھیک مانگ رہا ہے۔ دریافت کرنے پر پتہ چلا کہ یہودی ہے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اس سے دریافت کیا کہ ’’تجھے کس چیز نے بھیک مانگنے پر مجبور کیا؟‘‘ اس نے جواب دیا : جزیہ کی ادائیگی، معاشی ضروریات اور پیرانہ سالی نے۔ یہ سن کر آپ نے اس کا ہاتھ پکڑا اور اپنے مکان پر لے گئے۔ جو موجود تھا، وہ دیا اور پھربیت المال کے خزانچی کے پاس فرمان بھیجا: اُنظر ھذا وضربائہ فو ﷲ ما انصفناہ إن أکلنا شیبۃ ثم نخذلہ عندالھرم ﴿اِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَائِ وَالْمَسَاکِیْنَ﴾ والفقراء ھم المسلمون وھذا من المساکین من أھل الکتاب ووضع عنہ الجزیۃ وعن ضربائہ ’’یہ اور اس قسم کے دوسرے حاجت مندوں کی تفتیش کرو۔ اللہ کریم کی قسم! ہم ہرگز انصاف پسند نہیں ہوسکتے اگر ان (ذمیوں ) کی جوانی کی محنت (جزیہ) تو کھائیں اور ان کی پیرانہ سالی میں اُنہیں بھیک مانگنے کے لئے چھوڑ دیں ۔ قرآنِ عزیز میں ہے: ﴿اِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَائِ وَالْمَسَاکِیْنَ﴾ اور میرے نزدیک یہاں فقرا سے مراد مسلمان مفلس ہیں اور |