ہوئی، البتہ میں نے سادہ لفظوں میں اُنہیں جواب دیا کہ جہاں تک میں جانتا ہوں کہ اسلام کسی مخصوص گروہ کی حکومت کی وکالت نہیں کرتا، نہ یہ مذہبی پیشواؤں (Clergy)کی حکومت کاحامی ہے، اس پر مولانا نے کہا: ’’آپ بالکل ٹھیک کہتے ہیں کہ اسلام کسی مخصوص طبقہ یا گروہ کی حکومت کی وکالت نہیں کرتا۔‘‘ (صفحہ نمبر ۵۵) ’تھیوکریسی‘ کی مخالفت کی وجہ سے ہمارے وہ سیکولر دانشور جو کہتے ہیں کہ قائداعظم سیکولر ریاست کا قیام چاہتے تھے، کیا وہ یہ بات علامہ شبیراحمد عثمانی اور مولانا ابوالاعلیٰ مودودی کے متعلق بھی کہہ سکتے ہیں ، جو اسلامی ریاست کے پرجوش علمبردار تھے؟ اگر تھیوکریسی کی مخالفت کی وجہ سے ان دو علماے دین کے اسلامی ریاست کے قیام کے متعلق دیے گئے بیانات پر کوئی فرق نہیں پڑتا تو قائداعظم کے ان بیانات کو کیونکر نظر انداز کیاجاسکتا ہے جس میں اُنہوں نے واضح طو رپر اسلامی جمہوری ریاست کے قیام کی بات کی۔ ہمارے بعض انتہا پسند سیکولر دانشور پاکستان کے آئین میں اسلامی دفعات کی موجودگی کی وجہ سے پاکستان کو ’تھیوکریٹک‘ ریاست قرار دیتے ہیں ۔ ان کی یہ انتہا پسندانہ سوچ قائداعظم کے افکار سے مطابقت نہیں رکھتی۔ کیونکہ قائداعظم صرف ’پاپائیت‘ کے خلاف تھے، وہ اسلام کے روشن اُصولوں کی روشنی میں چلائی جانے والی اسلامی ریاست کے زبردست حامی تھے، جناب اکبر ایس احمد اپنی معروف کتاب "Jinnah Pakistan and Islamic identity" میں لکھتے ہیں : "Jinnah certainly did not want a theocratic state, a nation run by mullahs." (p.198) ’’ جناح یقینی طور پر ’تھیوکریٹک‘ ریاست نہیں چاہتے تھے، ایک ایسی قوم جسے ملاؤں کی طرف سے چلایا جائے۔‘‘ جناب اکبر ایس احمد کا یہ بیان حقیقت پر مبنی ہونے کے باوجود قائداعظم کے بیان کی جزوی تحریف پر مبنی ہے۔ ایک تو قائداعظم نے تھیو کریسی کی وضاحت کرتے ہوئے کبھی بھی "Mullah" کالفظ استعمال نہیں کیا، انہوں نے "Priest"کہا۔ مزید برآں اکبر ایس احمد نے قائداعظم کے بیان میں شامل "Divine Mission" کے الفاظ کونظرانداز کردیا۔ |