Maktaba Wahhabi

55 - 79
تعلق رکھتے ہیں ۔ ان فرمودات کے بعد یہ ناممکن ہے کہ انکارِ حدیث پر مبنی ان کا کوئی فرمان پیش کیا جاسکے۔ مقالے کی تنگدستی کے باعث میں نہ تو اس کتاب ’اقبال کے حضور‘ میں سے کچھ اقتباس پیش کرنے کی گنجائش پاتا ہوں اور نہ ہی کلامِ اقبال میں سے کچھ اشعار۔ میں صرف دو ایسے اقتباسات پیش کررہا ہوں جومجلہ طلوعِ اسلام ہی سے ماخوذ ہیں تاکہ اس موضوع پر خود وابستگانِ طلوعِ اسلام پر حجت قائم ہوسکے اور یہ اس لئے بھی کہ ع مدعی لاکھ پہ بہاری ہے گواہی تیری! طلوع اسلام کا مقصد ِ اجرا طلوعِ اسلام نے اپنے ابتدائی دور میں اپنے مقصد ِاجرا کو مندرجہ ذیل الفاظ میں بیان کیا تھا : ”پرچہ طلوعِ اسلام کے مقاصد کے متعلق اعلان کیا گیا تھا کہ اس کا مسلک حضرت علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے نورِ بصیرت کو عام کرنا: یعنی مسلمانوں کی حیاتِ اجتماعیہ سے متعلق ہر مسئلہ کا حل کتاب وسنت کی روشنی میں پیش کرنا ہوگا۔“[1] اس اقتباس سے یہ واضح ہے کہ علامہ اقبال کا مسلک کتاب و سنت ہی تھا۔ ان کے نور بصیرت کو عام کرنے کا مطلب اس کے سوا کچھ نہیں کہ مسائل حیات کا حل کتاب و سنت کی روشنی میں پیش کیا جائے۔ لیکن پاکستان بننے کے بعد ذہن ِپرویز نے عقائد و نظریات کے معاملے میں جو اُلٹی زقند لگائی اور قرآن و سنت کی بجائے فقط قرآن کی رٹ لگانا شروع کی تو مسلک ِاقبال کو بھی’مفکر قرآن‘ نے اپنے بدلتے ہوئے عقائد کی بھینٹ چڑھا دیا اور یہ پراپیگنڈہ شروع کردیا کہ علامہ اقبال یکے از منکرین حدیث تھے۔ نیز اس سے یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ جو شخص خود اپنے نظریات و معتقدات کوبدل ڈالنے کے بعد دوسری قابل احترام ہستیوں پربھی یہ جھوٹا الزام عائد کرتا ہے کہ ان کے عقائد بھی اس کے اپنے تبدیل شدہ عقائد کے مطابق تھے، وہ علامہ اقبال کے کلام کی تشریح و توضیح کرے گا؟ یا ترمیم و تغییر؟ امر واقعہ یہ ہے کہ ’مفکر ِقرآن‘ صاحب علامہ اقبال کے نام کی آڑ میں اپنے افکارِ باطلہ کے کھوٹے سکوں کو اسی طرح سوقِ علم میں لایا کرتے تھے جس طرح یہود و نصاریٰ اور مشرکین
Flag Counter