امام زرکشی رحمۃ اللہ علیہ کا علمی مقام اور ان کے بارے میں علما کے تعریفی کلمات امام زرکشی رحمۃ اللہ علیہ بیک وقت کئی علوم میں مہارت رکھتے تھے جن میں علومِ قرآن، حدیث، فقہ، اُصول فقہ اور ادب شامل ہیں ۔ اور ہر علم میں ان کی متعدد تصانیف ہیں جو کہ ان علوم میں ان کے تبحرعلمی پر واضح دلالت کرتی ہیں ۔امام مقریزی (م845ھ) فرماتے ہیں : ”امام زرکشی شافعی مسلک کے بہت بڑے فقیہ تھے، کئی علوم کے ماہر اور مفید کتب کے موٴلف تھے۔“7 ابن قاضی شہبہ رحمۃ اللہ علیہ نے اُنہیں اپنی کتاب طبقات الشافعية میں بڑے شافعی ائمہ میں شمار کیا ہے اور فرماتے ہیں : ”وہ بہت بڑے فقیہ، اُصولی اور ادیب تھے اور اِن علوم میں بڑی مہارت رکھتے تھے۔“8 ابن ایاس حنفی(م930ھ) فرماتے ہیں : ”امام زرکشی رحمۃ اللہ علیہ بہت بڑے عالم اور فاضل شخصیت تھے، متعدد کتب تصنیف کیں ۔ اپنے زمانے کے سب سے بڑے عالم تھے۔“9 امام داوٴدی (م945ھ) نے اپنی کتاب طبقات المفسرين میں ان کا شمار تفسیر کے ائمہ میں کیا ہے اور فرماتے ہیں : ”امام، عالم، علامہ اور انہوں نے نہایت قیمت ی کتب تصنیف کیں ۔“10 امام زرکشی رحمۃ اللہ علیہ کی تصانیف امام زرکشی رحمۃ اللہ علیہ کی کتابوں کی تعداد تقریباً پینتالیس بنتی ہے، جن میں سے اُنتیس کتابیں اس وقت دنیا میں موجود ہیں ۔محققین نے ان کتابوں کی تحقیق اور نشر واشاعت کا بہت اہتمام کیا ہے اور ان میں سے گیارہ کتابیں باقاعدہ طبع ہوچکی ہیں ، اٹھارہ کتابیں ابھی تک مخطوط شکل میں موجود ہیں ، جبکہ سولہ کتابیں حالاتِ زمانہ کی نذر ہو گئیں ہیں ۔ امام زرکشی رحمۃ اللہ علیہ کا زیادہ اہتمام فقہ اور اُصولِ فقہ کے ساتھ تھا، لہٰذا فقہ اور اُصولِ فقہ میں ان کی بائیس کتابیں ہیں ، حدیث میں نو کتابیں ، لغت وادب میں چار کتابیں ، علومِ قرآن میں تین کتابیں ، توحید وعقیدہ میں تین کتابیں اور تراجم میں ایک کتاب ہے۔11 |