کے حالات پر کنٹرول نہ رکھ سکا اور مصر کے حالات بد سے بدتر ہوتے چلے گئے اور منصور کے لئے بہت سے داخلی فتنے پیدا ہوگئے، جن کا عیسائیوں نے خوب فائدہ اُٹھایا اور 767ھ میں اسکندریہ پر قبضہ کرلیا، اور پھر کچھ ہی دیر بعد 784ھ میں جراکسہ کے حکمرانوں نے سلطان ابوسعید برقوق بن انس کی قیادت میں پورے مصر پر قبضہ کر لیا، اور اس نے بحری حکمرانوں کو چن چن کر قتل کردیا۔پھر اسی صدی کے آخر میں منگول چنگیز خان کے پوتے تیمور لنگ کی قیادت میں نئے سرے سے اُٹھ کھڑے ہوئے اور انہوں نے بلادِ مسلمہ کو نئے سرے سے تباہ وبرباد کردیا۔ ا لمختصر یہ وہ حالات تھے جنہوں نے آٹھویں صدی ہجری میں عالم اسلام کے چہرے کو سیاہ کیا۔ خطرہ مسلمانوں پر ہر طرف سے منڈلارہا تھا۔ مسلمان بت پرستی اور زندقہ کے حصار میں تھے، اور صلیبی بھی کوئی دقیقہ فرو گذاشت نہیں کر تے تھے۔ جبکہ مسلمان خود باہمی اختلافات کی زد میں تھے ۔باطنیہ اور حشیشی اسماعیلیہ جیسے فرقے اُمت ِ مسلمہ کے جسم کو گھن کی طرح کھا رہے تھے۔2 یہ تو سیاسی صورتحال تھی جبکہ علمی صورتحال اس کے بالکل برعکس تھی۔ یہ دور علمی لحاظ سے مسلمانوں کے لئے ایک سنہری دور تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اس میں بڑے بڑے علماء وفقہا پیدا کئے تھے جو دین اسلامی کے مختلف اختصاصات میں ید ِطولیٰ رکھتے تھے اور سیاسی حالات سے قطعاً متاثر نہ تھے بلکہ ایسے حالات نے ان کی صلاحیتوں کو خوب پروان چڑھایا اور اُنہوں نے ان فتنوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور علمی تحریک کو اوجِ ثریا تک پہنچادیا۔ لہٰذا اس زمانے میں بڑے بڑے مدارس اور لائبریریاں معرضِ وجود میں آئیں ۔ اور مختلف میدانوں اور اختصاصات میں دائرة المعارف اور معرکہ آرا قسم کی تصنیفات لکھی گئیں ۔ اس زمانے میں اس علمی تحریک کے پروان چڑھنے کا ایک بڑا سبب یہ تھا کہ منگول کے ہاتھوں بغداد کے سقوط کے بعد علما کرام مصر میں جمع ہوگئے اور ان کا ایک ہی مقصد تھا کہ ہم نے دینی علوم کو ضائع ہونے سے بچانا ہے، لہٰذا انہوں نے اپنی کوششوں کو کئی گنا بڑھا دیا۔ امام ابن حجر عسقلانی (852ھ) نے صرف آٹھویں صدی کے علما کے حالاتِ زندگی پر |