Maktaba Wahhabi

26 - 77
ہوتی ہے، بالکل اسی طرح اجتہاد بھی ماہرین علوم شریعت کا کام ہے، یہ ہر کس و ناکس کا کارنامہ نہیں۔ ورنہ جس طرح نیم حکیم خطرہٴ جان ہوتاہے، بالکل اسی طرح نیم ملا خطرہٴ ایمان ہوتا ہے۔ لہٰذا علما کو تھیاکریسی کا طعنہ دے کر اجتہادی ذمہ داریاں عوام کے سپرد کردینا نرا احمقانہ تصورہے۔ مقامِ غور ہے کہ اسلام میں جب نہ تو دستور و قانون وضع کرنے کا اختیار ہی علما کے پاس ہے اور نہ ہی ا ن کی تعبیر (انفرادی ہو یا اجتماعی) دائمی یا عالمگیر ہوتی ہے تو تھیاکریسی (پاپائیت) کیونکر قائم ہوگئی؟ ’اجتہاد‘ میں حکومت اتھارٹی ہے نہ علماء دین! دستور و قانون کے سلسلہ میں کسی خاص طبقے کی وضع و تعبیر کے اعتبار سے اجارہ داری تھیاکریسی کی بنیادی روح ہے جو دلیل کی بنیاد پر نہیں بلکہ شخصی برتری کی بنا پر کسی طبقے کو حاصل ہوتی ہے۔ یہی حال حکمرانوں کے تصور ’اختیارِ حقوقِ ربانی‘(Devine Rules of Kingdom) کا ہے۔ چنانچہ دستور و تعبیر میں علما کو دائمی اور عالمگیر اتھارٹی مانا جائے یا حکمرانوں اور پارلیمنٹ کو، یہ بہرحال خدائی حقوق میں دخل اندازی ہے جس کی قرآن مجید نے یوں مذمت فرمائی ہے: ﴿اِتَّخَذُوْا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللهِ… الاية﴾ 15 ”اُنہوں (یہود و نصاریٰ نے) اپنے علما اور درویشوں کو اللہ کے سوا اپنا ربّ ٹھہرالیا۔“ مروی ہے کہ حضرت عدی رضی اللہ عنہ بن حاتم طائی نے حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے جب اس آیت پر یوں معارضہ پیش کیا کہ ”ہم اپنے علما اور درویشوں کو ربّ نہیں کہتے؟“ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواباً ارشاد فرمایا تھا : ”تم انکے حلال کردہ کو حلال گردانتے ہو او رحرام کردہ کو حرام، یہی انہیں ربّ بنانا ہے۔“16 لہٰذا حقوقِ الٰہی میں دخل اندازی خواہ علما کی تسلیم کی جائے یا حکومت وعوام اور پارلیمنٹ کی، یہ انہیں ربّ بنا لینے کے ہی مترادف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ائمہ سلف نے خود کو کبھی اتھارٹی قرار نہیں دیا،بلکہ اس سلسلہ میں خود انہوں نے اپنے اقوال کو کتاب و سنت پر پیش کرنے اور یوں اپنے استدلالات کی صحت و غلطی کا جائزہ لینے کی تلقین کی ہے۔ جہاں تک موجودہ فقہی مکاتب ِفکر کی بات ہے تو یہ واضح رہنا چاہئے کہ موجودہ مذاہب ِ فقہ
Flag Counter