یہ دساتیر و قوانین ریاست کے حکمران یا عوامی نمائندے بناتے ہیں اور وہی ان کی تعبیر وتغیر کے ذمہ دار ہوتے ہیں، لیکن اسلام میں نہ تو دستور ِ حیات انسانی عقل و تجربہ کا نتیجہ یا ا س کا محتاج ہوتا ہے او رنہ ہی اس کی تعبیر و تنفیذ انسانی تگ و تاز پر منحصر رکھی گئی ہے بلکہ اللہ تعالیٰ نے کتاب (قرآنِ مجید) نازل فرما کر سنت ِ رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) سے اس کی تعبیر و تنفیذ بھی ہمیشہ کے لئے کردی ہے۔ اب انسانی تفکر و تعقل سے ہزاروں نکتہ آفرینیاں تو کی جاسکتی ہیں، لیکن ان میں سے کسی کو بھی حتمی مرادِ الٰہی نہیں قرار دیا جاسکتا۔9 ہاں صرف اورصرف سنت وحدیث ِرسول ہی حتمی تعبیر دین ہے کیونکہ رسول بہرحال معصوم ہوتا ہے، اور اس کے علاوہ کوئی شخص بھی معصوم عن الخطاء نہیں سمجھا جاسکتا۔ اسلام دورِ نبوی سے نافذ ہے ! اسلام کے اس دستوری فکر سے ناواقفی کی بنا پر ہی جدید سیاسی بزرجمہروں نے عوام کے ذہنوں میں یہ بات راسخ کردی ہے کہ جس طرح دستور و قانون پارلیمنٹ و حکومت پہلے خود وضع کرتی ہے اور پھر اس کا نفاذ کرتی ہے بالکل اسی طرح پہلے شریعت وضع کرنی پڑے گی اور پھر اس کا نفاذ عمل میں آئے گا۔ حالانکہ شریعت اللہ کی طرف سے مکمل ہوکر قیامت تک کے لئے نافذ ہوچکی اور﴿ اَلْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِيْ وَرَضِيْتُ لَكُمُ الْاِسْلاَمَ دِيْنًا﴾10 کے الفا ظ سے اس کا اعلان بھی ہوچکا ہے جس کاانتہائی واضح بلکہ عملی ثبوت یہ ہے کہ آج تک بہت سے مسلمان عبادات کے علاوہ سیاست واقتصاد سمیت اجتماعی معاملات میں بھی، ذاتی طورپر شریعت کے احکام کی اتباع کرتے چلے آرہے ہیں۔ ورنہ نفاذ سے قبل کسی قانون یا شرعی حکم کی تعمیل کا کوئی معنی ہی نہیں۔البتہ حکومت سے اگر نفاذِ شریعت کا مطالبہ کیا جاتا ہے تو اسکا معنی صرف یہ ہے کہ وہ قانونی طور پر بھی اس کا اعلان کرکے اپنے تئیں مسلمان بنائے اور یوں عوام و حکومت کے رویوں میں یکسانیت پیدا ہوجائے۔ کتاب اللہ کی تنزیل کے ساتھ ساتھ سنت وحدیث کی شکل میں تعبیر شریعت بھی 23 سالہ دور ِ نبوت میں مکمل ہوچکی۔ سورة النحل میں ارشاد ِ باری تعالیٰ ہے : ﴿وَنَزَّلْنَا عَلَيْكَ الْكِتٰبَ تِبْيَانًا لِّكُلِّ شَيْئٍ﴾ 11 |