لوگو! ان جہنمیوں کے حال پر غور کرو جو تارکول اور پگھلے ہوئے تانبے کے لباس میں جکڑے ہوں گے۔ ایک شاعر اس ذلت و خواری کا تذکرہ ان الفاظ میں کرتا ہے : لقد خاب من أولاد آدم من سقى إلى النار مغلول القلادة أزرفا يساق إلى نار الجحيم سربلا سرابيل قطران لباسا محرما ”آدم کی اس اولاد کی ذلت و خواری کا تصور کرو جو آگ کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی جہنم کی طرف ہانکی جائے گی ۔پھر اس پر بس نہیں ،بلکہ اسے تارکول کا لباس پہنا کر آتش جہنم کی طرف چلایا جائے گا جو اس کے جسم کو پگھلا کر رکھ دے گا۔“ ”پھرجب جہنم کے اندر انہیں کافروں کے جسم سے بہنے والاکھولتا ہوا کچ لہو پلایا جائے گا تو اس کی گرمی سے ان کا پورا جسم پھٹ کر ریزہ ریزہ ہوجائے گا۔“ جیسا کہ ہم نے ذکر کیا کہ ہر شخص کو اس کے عمل کے حساب سے بدلہ ملے گا، چنانچہ جس شخص کو جہنم کا سب سے ہلکا عذاب ہوگا، اس کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا بیان ہے : (إن أهون أهل النار عذابا من له نعلان وشراكان من نار يغلي منها دماغه كما يغلي المرجل ما يرى أن أحدا أشد منه عذابا وإنه لأهونهم عذابا) ”دوزخیوں میں سے جس شخص کو سب سے کم ترین عذاب ہوگا، اسے آگ کے دو جوتے اور دو تسمے پہنائے جائیں گے۔ ان کی شدتِ حرارت سے اس کا دماغ اس طرح کھولے جس طرح تیز آگ پر دیگچی کاپانی کھولتا ہے اور وہ یہی سمجھے گا کہ مجھ سے بڑھ کر کسی کو عذاب نہیں ہوسکتا،حالانکہ اسے سب سے کم عذاب ہورہا ہوگا۔“ (مسلم:516) ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں : ”جس شخص کو جہنم میں سب سے کم ترین عذاب ہوگا ،اس کے تلووٴں کے نیچے آگ کے دو انگارے رکھے جائیں گے جس کی و جہ سے اس کا دماغ اس طرح کھولے گا جس طرح تیز آگ پرمنہ بند ہنڈیا (پریشر ککر) کھولتی ہے۔ “(متفق علیہ ؛ بخاری:6562) اندازہ کرو اس شخص کے حال کا جو سب سے بڑھ کے عذاب میں مبتلا ہوگا ۔ (باقی آئندہ ) |