جاسکتا ہے اور اس کا حل یہ ہے کہ آپ صحیح بخاری کو سمجھنے میں اپنی تمام تر مساعی صرف کردیں ، ان تمام فتنوں کا حل صحیح بخاری میں موجود ہے۔ صحیح بخاری میں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے 55 سے زائد علوم کو سمو دیا ہے اور صحیح بخاری ہمیں وہی اُسلوب عطا کرتی ہے جوبعد میں ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ اور شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے متعارف کرایا کہ فقہا محدثین کا انداز اختیار کیاجائے، یعنی فقہ و حدیث دونوں کو اپنے سامنے رکھا جائے اور ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے رسالہ ’فی علوم الظاہر والباطن ‘میں یہی فکر پیش کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ حیلے فقہ کے نام پر بدنما داغ ہیں اور امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ’کتاب الحیل‘ کے نام سے ایک مستقل باب قائم کرکے اجتہاد کے نام پر حیلوں کو فروغ دینے کے رویہ کی جابجا تردید کی ہے۔ اس کے بعد اُنہوں نے حدیث و سیرت کا فرق واضح کیا کہ سنت سے مراد وہ راستہ ہے جس کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی گزاری، اس طریقہ کو جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بیان کردیا تو اسے ہی حدیث کا نام دیا گیا، اس لحاظ سے حدیث و سنت میں کوئی فرق نہیں ہے اور سیرت سے مراد وہ اُمور ہیں جو ایک حکمران اور منتظم کی حیثیت سے اس خاص عربی تہذیب کے زیراثر آپ سے صادر ہوئے، مثلاً آپ کا لباس ، کھانا ، وغیرہ یعنی آپ کی وہ شخصی زندگی جسے آپ نے بطورِ انسان کے اختیار کیا۔ اس کے بعد ان اداروں کے قیام کی مشکلات اور ان کے مقاصد کا تذکرہ کرتے ہوئے انہوں نے طلبہ کو خلوص دل سے محنت کرنے کی تلقین کی۔ انہوں نے کہا کہ میں اور میرے فاضل ساتھی حافظ ثناء اللہ مدنی ایک چراغِ سحری کی مانند ہیں ، لیکن اس ادارہ کو جس محنت سے ہم نے سینچا ہے، اس کا اجر ان شاء اللہ اس کے پاس محفوظ ہے اور ہمیں یہ یقین ہے کہ ہماری محنتیں رائیگاں نہیں جائیں گی۔اس ادارے سے فیض پانے والے طلبہ اسلام کی خدمت میں ضرور اہم کردار ادا کریں گے۔ انہوں نے دل سوز انداز میں طلبہ سے کہا کہ ہم اور آپ آپس میں حقوق وفرائض میں بندھے ہوئے ہیں ۔ میرا فرض یہ ہے کہ میں آ پ کے لئے بہترین اساتذہ کا انتظام کروں ، معیار ی انتظامات اور مناسب سہولیات وافر پہنچاؤں جن کی فراہمی میں ، میں نے اپنی زندگی صرف کر دی ہے اور اپنے علم وذوق کی قربانی دے کر ان اداروں کی خدمت کی ہے۔ میرا آپ پر یہ حق ہے کہ آپ میرے اوراس ادارے کے حق میں دعاے خیر کریں کہ اللہ اسے تادیر قائم |