گزرا، ان کی خدمات کا تذکرہ کیا اور بتایا کہ سید نذیر حسین محدث دہلوی کے مدرسہ میں حدیث کے علاوہ دیگر علوم بھی پڑھائے جاتے تھے، اسی وجہ سے انہیں شیخ الکل فی الکل کا خطاب ملا تھا اوران کی یہ درس گاہ دارالعلوم دیوبند سے 25 سال پہلے 1842ء میں قائم ہوچکی تھی۔ اُنہوں نے بیان کیا کہ اس تحریک کے نتیجہ میں ایک کشمکش پید اہوئی۔ ایک طرف یہ مکتبہ فکر تھا کہ فقہی آرا کو کتاب و سنت پر پیش کیا جائے اور جو جو رائے کتاب و سنت کے زیادہ قریب ہو اُسے اختیار کرلیا جائے اور یہی رویہ شاہ صاحب اور ان کے حلقہ احباب کا تھا اوران سے پہلے علامہ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اسی نکتہ نظر کی آبیاری کی تھی۔ دوسری طرف وہ مکتبہ فکر تھا کہ فقہی جمود بھی ٹوٹنے نہ پائے اور کتاب و سنت بھی ہمارے ہاتھ سے نہ جائے، اس نے کتاب و سنت کو مروّجہ فقہ کے مطابق ڈھالنے کی کوششیں شروع کردیں کہ کتاب و سنت حنفی فقہ کے مطابق بن جائے۔لیکن یہ رویہ ان میں سے مخلص لوگوں کو مطمئن نہ کرسکا اوراس فکر کے علمبرداروں میں سے بعض نے اپنے اس رویہ کو ضیاعِ حیات کے مترادف قرا ردیا، جیسا کہ دیو بند کے شیخ الحدیث مولانا انور شاہ کشمیری کا مشہور واقعہ ہے جسے مفتی محمد شفیع صاحب نے بیان کیا ہے۔ مولانامدنی نے کہا کہ بھرحال شاہ ولی اللہ کی تحریک کے ہندوستان پر گہرے اثرات مرتب ہوئے۔ اور دیگر اہم فوائد کے ساتھ ساتھ ایک فائدہ یہ ہوا کہ فقہی جمود ٹوٹا اور حدیث کی روشنی عام ہوئی۔اس کے بعد اُنہوں نے ثابت کیا کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کسی مذہب کے مقلد نہیں ،بلکہ وہ خود مجتہد تھے اور صحیح بخاری کے ابواب ان کی فقہ کامنہ بولتا ثبوت ہیں ،نیز فقہی مذاہب کو تو بقول شاھ ولی اللھ رحمۃ اللہ علیہ چوتھی صدی ہجری کے بعد فروغ ملا،جبکہ امام بخاری 256 ہجری میں وفات پاگئے تھے۔ اور انہوں نے بطور دلیل مولانا انور شاہ کشمیری کا قول بھی نقل کیا، جنہوں نے امام بخاری کو مجتہد تسلیم کیا ہے۔ انہوں نے فقہ کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ صحیح فکر یہ ہے کہ فقہی آرا کو کتا ب و سنت کی نصوص کے سانچے میں رکھ کر گہرے غور وفکر، صحابہ وائمہ اسلاف کے منہج تحقیق اور ان کے اُصولوں کی روشنی میں سمجھا جائے اورجو رائے کتاب و سنت کے زیادہ قریب ہو اُسے اختیار کرلیا جائے، امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی یہ بات کہ لا يجوز لأحد أن يفتى بكلامى حتى يعرف دليلي بھی اسی طرف اشارہ کررہی ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ درایت کے نام پر پیدا ہونے والے فتنہ میں انحراف کی راہوں کا توڑ حدیث و سیرت کے گہرے مطالعہ سے ہی تلاش کیا |