الفربری۔ نسبت ہے مقام ’فربر‘ کی طرف جو کہ بخارا میں دریائے جیھون کے کنارے پر واقع ہے۔ امام فربری کا سن ولادت 231ھ اور وفات 330ھ ہے۔ انہوں نے امام بخاری سے صحیح بخاری دو بارپڑھی ہے۔ ایک دفعہ 248ھ میں ’فربر‘ میں اور ایک دفعہ بخارا میں 252ھ میں اور اس کے چار سال بعد امام صاحب کا انتقال ہوگیا۔ امام فربری رحمۃ اللہ علیہ نے کہا کہ اس وقت بخاری کے شاگردوں میں سے روئے زمین پر میرے سوا کوئی نہیں تھا ،لیکن ان کا یہ کہنا درست نہیں ۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے ہدی الساری (مقدمہ فتح الباری) میں فرمایا کہ ابوطلحہ منصور کا انتقال فربری کے 9سال بعد ہوا ہے اور فربری کا بیان ہے کہ امام صاحب کے شاگردوں کی کل تعداد 90 ہزار ہے اور ان کے اساتذہ کی تعداد 1080 ہے اور ان کے شیوخ کے پانچ طبقات ہیں ۔ امام صاحب کے شیوخ میں قدرِ مشترک یہ ہے، جیسا کہ امام صاحب فرماتے ہیں کہ میں نے صرف ان اساتذہ سے حدیث لی ہے جن کا عقیدہ یہ تھا کہ الايمان قول وعمل ويزيد وينقصاور اسی پرامام صاحب نے کتاب التوحید کی بنیاد رکھی۔ صحیح بخاری کی تین کتابوں کی قدرِ مشترک یہی ہے اور وہ یہ ہیں :کتاب الایمان، کتاب الاعتصام والسنہ اور کتاب التوحید۔ امام صاحب کا بیان ہے کہ ”مجھے یقین ہے کہ قیامت کے روز جب میں اللہ کی عدالت میں پیش ہوں گا تو اللہ تعالیٰ مجھ سے کسی کی غیبت کے بارے سوال نہیں کرے گا۔ اس سے معلوم ہوا کہ بخاری نے جن راویوں پر جرح کی ہے، وہ خالصتاً روایات کی اصلاح کے نکتہ نظر سے ہے۔ امام بخاری کے مختصر تذکرہ او رصحیح بخاری کی عظمت وفضیلت پر مندرجہ بالا ارشادات کے بعد محترم حافظ صاحب نے صحیح بخاری کی آخری حدیث پر بڑا جامع مانع درس دیا جس میں آپ نے اس حدیث کے مختلف پہلووں کو نکھار نکھار کربیان فرمایا۔ آپ کا یہ درس آپ کے وسعت علم، قوتِ حافظہ اور دلائل کے استحضار میں اپنی مثال آپ تھا۔صفحات کی قلت کی بنا پر ہم اس درس کی مکمل اشاعت نہ کرنے پر حضرۃ حافظ صاحب اور قارئین سے معذرت خواہ ہیں ۔ رئیس الجامعہ حافظ عبد الرحمن مدنی کا خطاب ٭ نمازِ عشاء کے بعد رئیس الجامعہ مولانا حافظ عبدالرحمن مدنی کو دعوتِ خطاب دی گئی۔ انہوں نے دنیا وآخرت کا صحیح تصور ، کتاب و سنت کو نظر انداز کرنے کے نتائج، تقلیدی جمود کو ختم کرنے میں شاہ ولی اللہ کی تحریک کے اثرات، فتنہٴ استخفافِ حدیث میں تقلیدی جمود کا کردار |