قربِ سلطانی حاصل تھا۔ چنانچہ جتنے بھی قاضی مقرر ہوتے تھے وہ فقہ حنفی کے پیروکار ہوتے تھے۔ کسی مذہب کی اشاعت کا یہ سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ اسی بنا پر ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ہے: ”مذهبان فى مبدء أمرهما انتشر بالدولة والسلطان: الحنفية في المشرق والمالكية في المغرب“ ”دو مذاہب ایسے ہیں جو ابتدا میں حکومت اور اختیارات کے ذریعے پھیلے: مشرق میں حنفی مذہب اور مغرب میں مالکی مذہب۔“ اسی زمانہ میں منکرین تقدیر، منکرین صفاتِ الٰہی اور منکرین عذابِ قبر، معتزلہ، مجسمہ، رافضہ، امامیہ اور خوارج اپنے غلط نظریات کی اشاعت میں کمربستہ تھے۔ اسی ماحول میں امام بخاری نے 16 سال کے عرصہ میں اپنی یہ تالیف مکمل فرمائی اور جملہ فتنوں کا توڑ کتاب و سنت کی روشنی میں پیش کیا، لیکن کمال کی بات یہ ہے کہ مخالف کا نام لے کر صحیح بخاری میں اس کی تردید نہیں کی اور ایسا ظرف بھی بہت کم لوگوں کو حاصل ہوتا ہے۔ مثال کے طور پرکتاب الایمان میں تقریباً 70 دلائل کے ساتھ آپ نے مخالفین کی تردید فرمائی ہے: باب المعاصي من أمر الجاهلية لا يكفر صاحبها بارتكابها إلا بالشرك لقول النبي صلی اللہ علیہ وسلم لأبى ذر: إنك امرء فيك جاهلية ولقوله تعالى ﴿إن الله لا يغفر أن يشرك به ويغفر مادون ذلك لمن يشاء﴾ اس باب سے امام بخاری کا مقصود ان لوگوں کی تردید کرنا ہے جو مرتکب ِکبیرہ کو کافر قرار دیتے ہیں اور وہ ہیں خوارج جبکہ انجامِ کار کے اعتبار سے معتزلہ بھی ان کے ساتھ شریک ہیں ۔ دوسرا باب الكفر دون الكفر،اسی طرح الظلم دون الظلم اس باب سے مقصود یہ ہے کہ اطاعت کے ذریعے ایمان میں اضافہ اور معاصی کے ذریعے اس میں کمی ہوتی ہے۔ یہاں ان لوگوں کی تردید مقصود ہے جو کہتے ہیں کہ ایمان کے ساتھ معصیت نقصان دہ نہیں ہے اور وہ ہیں مرجئۃ۔اسی طرح باب ہے ﴿وان طائفتان من المومنين اقتتلوا فاصلحوا بينهما﴾ فسمّاهم الموٴمنين ہاں بھی ان لوگوں کی تردید مقصود ہے جو مرتکب ِکبیرہ کی تکفیر کے قائل ہیں ۔ ان تمام باتوں کا حاصل یہ ہے کہ صحیح بخاری ایک عظیم خزانہ ہے جس میں تقریباً 55علوم کو سمو دیا گیا ہے۔ اس سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی ذہانت و فطانت کا اظہار ہوتا ہے اور اسی بنا پر ان کی اس عظیم تالیف کو اُمت میں عظیم ترین مقام ومرتبہ حاصل ہے۔ بخاری کا مروّ جہ نسخہ امام فربری کی روایت سے ہے:محمد بن یوسف بن مطیر بن صالح |