Maktaba Wahhabi

58 - 95
اس جیسی کوئی کتاب تالیف نہ کرسکا اور نہ قیامت تک ایسی کتاب کی تالیف ہوگی کیونکہ اس کی صحت پر اُمت کا اجماع ہوچکا ہے کہ کتاب اللہ کے بعد صحیح ترین کتاب صحیح بخاری ہے : مضت الدهور وما أتين بمثله ولقد أتى فعجزن عن نظرائه ”زمانے گزر چکے ہیں لیکن آج تک صحیح بخاری جیسی تالیف معرضِ وجود میں نہیں آسکی۔ “ صحیح بخاری کی اسناد ایسی ہیں کہ ان پر بحث کی ضرورت نہیں ۔امام شوکانی رحمۃ اللہ علیہ بعض ائمہ سے یہ بات نقل کرتے ہیں کہ فكل رواته قد جاوزوا القنطرة وارتفعوا قيل وقال وصاروا أكبر من أن يتكلم فيهم بكلام أو يطعن طاعن أو توهين موهن بخاری کے راوی تمام پرکھ کے تمام پل پار کر چکے ہیں ، اب ان میں طعن و تشنیع کی کوئی گنجائش نہیں ۔شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ حجة اللہ البالغةمیں فرماتے ہیں : ”جو شخص بخاری اور مسلم کے راویوں میں کیڑے نکالتا ہے، وہ شخص بدعتی اور مسلمانوں کے طریقہ سے خارج ہے۔“ مشہور موٴلف و موٴرخ امام ابن خلدون فرماتے ہیں کہ شرح صحيح البخارى دین على هذه الامة ”صحیح بخاری کی شرح اُمت کے ذمہ قرض ہے۔ “ ابوالخیر نے اپنی کتاب التبر المسبوق في ذيل السلوك میں لکھا ہے کہ ابن خلدون فتح الباری کی تالیف سے پہلے وفات پاگئے تھے، فتح الباری کی تالیف کے بعد آج اگر وہ دنیا میں زندہ ہوتے تو لقرت عينه بالوفاء والاستيفاء توفتح الباری کو دیکھ کر ان کی آنکھیں ٹھنڈی ہوجاتیں اور وہ خوش ہوجاتے، کیونکہ اس کتاب کے ذریعے اُمت نے اس کی شرح کا حق ادا کردیا ہے۔ حافظ عبداللہ غازی پوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ عین ممکن ہے کہ ابن خلدون کا مقصد یہ ہو کہ يزيدك وجههه حسنا إذا ما زرته ”بخاری ایسی کتاب ہے جتنی دفعہ آپ اس کا مطالعہ کریں گے نئے نئے نکات سامنے آئیں گے۔“ وہ استاد جس کی زندگی صحیح بخاری کی تدریس کرتے ہوئے گزر گئی، جب وہ صحیح بخاری کو پڑھتا ہے تو ہر سال نئی نئی چیزیں اس کے سامنے آتی ہیں ۔اس عظیم کتاب میں 97 کتابیں اور چار ہزار سے زائد ابواب ہیں اور بخاری میں مختلف ابواب سے ثابت ہونے والے مسائل 30 ہزار سے زیادہ ہیں ۔ جس ماحول میں امام صاحب پیدا ہوئے تھے، اس میں طرح طرح کے فتنے موجود تھے۔ اہل رائے کے اقوال پورے ماحول میں منتشر تھے۔ اس کا سبب یہ تھا کہ قاضی ابویوسف کو
Flag Counter