کا عذاب دینے سے ممانعت کے متعلق حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث کو شرعی حجت تسلیم کیا جو اس بات کی واضح دلیل ہے کہ خلفاے راشدین قرآن کے ساتھ حدیث ِنبوی پر ہی اپنے عمل کی بنیاد رکھتے تھے۔ اُنہوں نے بتایا﴿وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰى إنْ هُوَ اِلَّا وَحْىٌ يُّوْحٰى﴾ (النجم:3،4) اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص کو یہ فرمانا: ما يخرج من هذا إلا حق کہ ”زبانِ نبوت سے حق کے علاوہ کچھ صادر نہیں ہوتا۔“ اس بات پر واضح دلیل ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سفر و حضر میں ہوں ، رات کے اندھیرے یا دن کے اجالے میں ؛ مسجد کے اندر ہوں یا باہر، آپ کا ہر قول و فعل اور تقریر خواہ وہ سیاست کے متعلق ہو یا معیشت اور معاشرت کے متعلق اُمت کے لئے ٹھوس بنیاد رکھتا ہے اور دین میں حجت ہے۔انہوں نے واضح کیا کہ صحیح بخاری کو احادیث کا آغاز قرار دینا نری جہالت ہے کیونکہ صحیح بخاری سے پہلے مسند احمد، اس سے پہلے امام احمد کے استاد امام شافعی کی ’الام‘ ان کے استاد امام مالک کی موطا، اس سے پہلے صحیفہ صادقہ، صحیفہ ہمام بن منبہ اور ان سے پہلے نبی کریم کی متعدد تحریریں موجود تھیں ۔ انہوں نے کہا نبی کریم کے فرامین کی بنیاد پر ہی ہم آپ کے دہن مبارک سے ادا ہونے والے بعض الفاظ کو قرآن کریم کا درجہ دیتے ہیں او آپ کے بعض فرامین کو سنت ِنبوی قرار دیتے ہیں ۔ آخر میں اُنہوں نے طلبا کو وصیت کرتے ہوئے فرمایا کہ والدین کا تمہیں دین کے لئے وقف کرنا اور ادارہ کا آپ کے لئے یہ تعلیمی انتظام کرنا اور اس کے لئے بھاری بھرکم اخراجات برداشت کرنا اس امر کا متقاضی ہے کہ تم اپنے اندر وقت کی قدر اور اپنے فرض کا احساس پیدا کرو ، دنیا کے بدلتے حالات اور دین کے خلاف اُٹھنے اولے فتنوں پر نظر رکھو۔ قرآن وسنت کو سمجھنے میں اپنی پوری قوت صرف کردو، اور قراء اتِ قرآنیہ کے ساتھ حدیث و سنت پر اُٹھائے جانے والے اعتراضات کا جواب دینے کی بھرپور صلاحیت پیدا کرو۔ ٭ اس کے بعد قاری عزیر صاحب (مدیر مدرسة الاصلاح، گلشن راوی)نے فرمانِ الٰہی ﴿لَوْلَا نُزِّلَ عَلَيْهِ الْقُرْآنُ جُمْلَةً وَّاحِدَةً كَذٰلِكَ لِنُثَبِّتَ بِه فُوَادَكَ وَرَتَّلْنَاهُ تَرْتِيْلًا﴾(الفرقان:32)سے اپنی تقریر کا آغاز کرتے ہوئے ’تجوید کی اہمیت‘ پر اپنے خیالات پیش کیے۔اُنہوں نے فرمایا کہ تجوید کا لغوی معنی’کسی چیز کو عمدہ اور خوبصورت بنانا‘ ہے اور دنیا کے ہر کام اور شعبہ میں تجوید، یعنی اس کو عمدہ طریقہ سے کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ |