Maktaba Wahhabi

47 - 95
انہوں نے لفظ ’قراء ۃ‘ کے مختلف لغوی معانی کا تذکرہ کرتے ہوئے بتایا کہ اس کا ایک معروف معنی، جمع کرنا یا جمع ہونا ہے، جو اس حقیقت کی طرف اشارہ کناں ہے کہ مسلمانوں کے لئے جادۂ مستقیم پر گامزن رہنے کا ایک ہی کلیہ ہے کہ وہ سب قرآنِ مجید پرجمع ہوجائیں ۔ اس کے بعد انہوں نے بیسیوں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مروی حدیث : (أنزل القرآن على سبعة أحرف) جسے علماء ِامت نے متواتر قرار دیا ہے، سے استدلال کرتے ہوئے یہ ثابت کیا کہ اللہ تعالیٰ نے اُمت کی آسانی اور دیگر بیش بہا حکمتوں کے پیش نظر قرآنِ کریم کو سات حروف پر نازل کیا ہے اور قراءاتِ سبعہ عشرہ اُنہی سبعۃ أحرف پر مشتمل ہیں ، لہٰذا تمام قراء اتِ متواترہ منزل من اللہ اور وحی ہیں اور قراء ات کا یہ اختلاف تضاد کا نہیں ،بلکہ تنوع کااختلاف ہے۔ انہوں نے ہر دور میں قراء ات پر لکھی جانے والی کتب اور فن قراء ۃ کی خدمت کرنے والے ائمہ کرام کے اسماء گرامی پیش کیے : نام مصنف وفات نام کتاب یحییٰ بن یعمر 90ھ القراء ات ابان بن تغلب الکوفی 141ھ القراء ات ابو عبید قاسم بن سلام 224ھ القراء ات ابو بکر محمد بن احمد بن عمر الداحوانی 324ھ التیسیر فی القراء ات السبع مکی بن ابی طالب 436ھ الکشف ابی القاسم بن فیرۃ الاندلسی الشاطبی 590ھ حرز الامانی ووجہ التہانی ابو القاسم عیسیٰ بن عبد العزیز الاسکندری 629ھ التذکرۃ ابو محمد عبد اللہ بن عبد المومن الواسطی 740ھ الکنز فی القراء ات العشر امام ابن الجزری 833ھ النشر فی القراء ات العشر جمال الدین الموصلی 963ھ الشفعۃ فی القراء ات السبعۃ امام صفاقسی 1030ھ غیث النفع دکتور فضلی نے ان کا تذکرہ القرآء ات القرآنیۃ میں کیا ہے،اس کے بعد انہوں نے مختلف علما کے اقوال کے ذریعے یہ ثابت کیا ہے کہ قراء اتِ قرآنیہ کا انکار کفر ہے۔ ٭ پہلا خطاب چونکہ قرآنِ کریم کے ظاہری الفاظ کی حفاظت کے موضوع پر تھا، چنانچہ
Flag Counter