Maktaba Wahhabi

36 - 62
﴿قُلْ إنْ کَانَ اٰبَاؤکُمْ وَاَبْنَائُ کُمْ وَإخْوَانُکُمْ وَأَزْوَاجُکُمْ وَعَشِیْرَتُکُمْ وَأَمْوَالُنِ اقْتَرَفْتُمُوْہَا وَتِجَارَۃٌ تَخْشَوْنَ کَسَادَہَا وَمَسٰکِنَ تَرْضَوْنَہَا أَحَبَّ إلَیْکُمْ مِّنَ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہِ وَجِہَادٍ فِيْ سَبِیْلِہِ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰی یَأتِيَ اللّٰہُ بِأَمْرِہِ وَاللّٰہُ لاَ یَہْدِي الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ﴾ ’’ (اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !) آپ کہہ دیجئے کہ اگر تمہارے باپ اور تمہارے لڑکے اور تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں اور تمہارے کنبے ،قبیلے اور تمہارے کمائے ہوئے مال اور وہ تجارت جس کی کمی سے تم ڈرتے ہو اور وہ حویلیاں جنہیں تم پسند کرتے ہو ، اگر یہ (سب کچھ) تمہیں اللہ سے اور اس کے رسول سے اور اس کی راہ میں جہاد سے بھی زیادہ محبوب ہیں تو تم انتظار کرو کہ اللہ تعالیٰ اپنا عذاب لے آئے اور اللہ تعالیٰ فاسقوں کو ہدایت نہیں دیتا۔‘‘ سورۃ التوبہ کی آیت۲۴ بھی جہاد فی سبیل اللہ کو محبت ِالٰہی کی پرکھ کی کسوٹی قرار دیتی ہے۔ گویا قرآن کے نزدیک جہا دکی محبت اور اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت، دونوں ایک ہی حقیقت کی دو مختلف تعبیریں ہیں ۔ علامہ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ حب ِالٰہی کے مسئلے پر بحث کرتے ہو ئے صراحت سے لکھتے ہیں : ’’اتباعِ شریعت اور جہاد ہی وہ سب سے بڑا فرق و امتیاز ہے جو اللہ سے سچی محبت کرنے والوں اورجھوٹے مدعیوں کے درمیان پایا جاتاہے اور جس کے ذریعے ان اولیاء اللہ کے، جو اللہ کے واقعی محب اور محبوب ہیں ، اور ایسے مدعیانِ محبت کے درمیان تمیز کی جاسکتی ہے، جو دعواے محبت کے ساتھ مخالف ِشرع باتوں اور اپنے جی سے گھڑی ہوئی بدعتوں کا اتباع کرتے ہیں یا جو محبت کا خود ساختہ مفہوم لیتے ہیں (کہ خدا کی پیدا کردہ ہرچیز سے محبت کی جائے) تو ان کا دعویٰ محبت یہود و نصاریٰ کے دعویٰ محبت جیسا ہے۔‘‘ (۶) عشق اور صفاتِ الٰہی قرآن حکیم میں بیان شدہ صفاتِ الٰہی کا جائزہ ہمیں دو حقیقتوں سے آگاہ کرتا ہے: ایک یہ کہ ان میں معشوقیت کا کہیں نام و نشان بھی نہیں ہے۔ دوسری یہ کہ ان صفات میں جہاں جمالی صفات ہیں ، وہاں جلالی صفات بھی ہیں ۔ تعلق باللہ کی ٹھیک ٹھیک حیثیت معلوم و متعین
Flag Counter