’’جو لوگ مکہ میں رہتے ہیں یا مکہ میں آگئے ہوں ، وہ حرم ہی سے عمرے کا احرام باندھ کر عمرہ ادا کرسکتے ہیں ۔ ان کو حرم کی حد سے باہر جاکر جیسے تنعیم یا جعرانہ جاکر وہاں سے احرام باندھنا ضروری نہیں ۔ اکثر اہلحدیث کا یہی قول ہے اور ہمارے اصحاب میں سے صاحب ِسبل السلام نے اسی کو ترجیح دی ہے۔‘‘ (لغات بذیل کلمہ عمرہ) صاحب ِ’سبل السلام‘ محمد بن اسماعیل امیر صنعانی رحمۃ اللہ علیہ چونکہ اہلحدیث مکتب ِفکر کے ممتاز فرزند تھے، اس لئے مولانا مرحوم کا اپنی نسبت ان کی طرف کرنا اور دیگر کئی مقامات پر بھی قرآن وحدیث سے براہِ راست مسائل اخذ کرنے کا نکتہ نظر بیان کرنا اس بات کی تصدیق کردیتے ہیں کہ مرحوم حنبلی [1]یا اہلحدیث تھے اور آخر دم تک اسی موقف پر رہے۔ مگر اہلحدیث ہونے کے باوجود موصوف عوامی مسلک اہل حدیث سے قدرے آزاد شخصیت کے مالک تھے۔چنانچہ بے شمار مقامات پر ان کے افکار اہلحدیث مکتب ِفکر کی ترجمانی نہیں کرتے مثلاً ’لغات‘ ہی میں ایک مقام پر لکھتے ہیں کہ ’’مجھے میرے ایک دوست نے لکھا کہ جب سے تم نے کتاب ہدیۃ المھدي تالیف کی ہے تو اہلحدیث کا ایک بڑا گروہ جیسے مولوی شمس الحق عظیم آبادی اور مولوی محمد حسین صاحب لاہوری اور مولوی عبداللہ صاحب غازی پوری اور مولوی فقیراللہ صاحب پنجابی اور مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری وغیرہم تم سے بددل ہوگئے ہیں اور عامۂ اہلحدیث کا اعتقاد تم سے جاتا رہا۔ میں نے ان کو جواب دیا: الحمدللہ کوئی مجھ سے اعتقاد نہ رکھے، نہ میرا مرید ہو، نہ مجھ کو پیشوا اور مقتدیٰ جانے، نہ میرا ہاتھ چومے، نہ میری تعظیم و تکریم کرے۔ میں مولویت اور مشائخیّت کی روٹی نہیں کھاتا کہ مجھ کو ان کی بے اعتقادی سے کوئی ڈر ہو۔ ان مولویوں کو ایسی باتوں سے ڈرائیے جو پبلک کے قلوب اپنی طرف مائل کرانا اپنے معتقدوں کی جماعت بڑھانا، ان سے نفع کمانا، ان کی دعوتیں کھانا، ان |