Maktaba Wahhabi

76 - 78
موصوف کے سامنے اگر کسی بڑے امام یا فقیہ کاکوئی ایسا قول آتا ہے جو واضح طور پر قرآن و حدیث سے متعارض ہو تو موصوف اس قول کی تائید و تصحیح کرنے کے لئے قرآن و حدیث میں تاویل و تنسیخ کا سہارا لینے کی بجائے برملا قرآن و حدیث کو ترجیح دیتے ہیں اور اس قول کو باطل، غلط اور قابل تردید قرار دیتے ہیں ۔ مثلاً امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے حوالہ سے ’اشعار بدن‘( ہدی کے اونٹ کی کوہان کو چیرا دینے)کو مکروہ سمجھنے کو خلافِ حدیث قرار دیتے ہوئے رقم طراز ہیں کہ ’’ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا قول صحیح حدیثوں کے برخلاف ہے اور خود انہی (امام صاحب) کی وصیت کے موافق چھوڑ دینے کے لائق ہے۔‘‘(ایضاً:بذیل کلمہاشعار،نیز بذیل مادّہ سکراور سواد) مذکورہ اقتباسات سے معلوم ہوتا ہے کہ موصوف کسی بھی مذہب ِمعین کی تقلیدجامد کے مخالف تھے بلکہ اس کے برعکس کئی مسائل میں قرآن وحدیث کی براہِ راست پیروی کے قائل تھے۔ چونکہ اہلحدیث مکتب ِفکر کا بھی یہی نکتہ نظر ہے جن کے سر خیل امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ بھی ہیں ۔ فقہ کی بجائے ’اصل شریعت‘(قرآن وحدیث) سے امام احمد بن حنبل کی زیادہ وابستگی ہی بنا پر آج ان سے منسوب حضرا ت میں تقلیدی تعصب سب سے کم ہے۔ اس لئے مولانا مرحوم کبھی اپنے تئیں امام احمدبن حنبل رحمۃ اللہ علیہ سے منسوب کرتے ہیں اور اسی بنا پر خود کو حنبلی ظاہر کرتے ہیں ۔مثلاً صحیح بخاری کی تشریح میں ایک باب کہ ’’جب پانی اور مٹی دونوں ہی میسر نہ ہوں تو نماز کیا کرے؟‘‘ کے تحت حاشیہ میں رقمطراز ہیں کہ ’’ہمارے امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ اور شافعی اور اہلحدیث کا یہ قول ہے کہ وہ یوں ہی نماز پڑھ لے پھر جب پانی یا مٹی ملے تو نماز کا لوٹانا واجب نہیں ۔(جبکہ) امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا یہ قول ہے کہ ایسا شخص نماز نہ پڑھے اور اس پر قضا واجب ہے ۔‘‘ ( تیسیر الباری، ترجمہ وتشریح صحیح بخاری از وحید الزمان: صفحہ۲۶۰/جلد۱) اسی طرح تیمم کے حوالہ سے رقمطراز ہیں کہ ’’ ہمارے امام احمد بن حنبل اور اہلحدیث کا یہی قول ہے کہ تیمم میں ایک بار (زمین پر ہاتھ) مارنا کافی ہے …لیکن حنفیہ کے نزدیک دو بار ہاتھ مارناچاہیے۔‘‘ (ایضاً: ۱/ ۲۶۲) بسا اوقات خود کو ’اہلحدیث‘ ظاہر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ
Flag Counter