Maktaba Wahhabi

70 - 78
از ’حافظ حسن مدنی‘ ’کلوننگ‘ کا عمل کیا ہے؟ غیر سائنسی الفاظ میں سادہ الفاظ میں انسانی کلوننگ سے مراد ایسا عمل ہے جس کے ذریعے مردانہ کرمِ منی اور نسوانی بیضہ کے فطری ملاپ کے بغیر خلیاتی سطح پر سائنسی عمل کے ذریعے سلسلہ تناسل جاری رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ا س میں نسوانی بیضہ کے خلیہ کا کسی بھی دوسرے جنسی یا غیر جنسی خلیہ سے اس طرح ملاپ کروایا جاتاہے کہ نسوانی بیضہ کے خلیہ ’الف‘ کا مرکزہ نکال کرضائع کردیا جاتا ہے اور دوسرے غیر جنسی، مردانہ یا زنانہ خلیے’ب‘ (جو جسم کے کسی بھی حصے سے لیا جا سکتا ہے) کا مرکزہ نکال کراس نسوانی بیضہ میں فٹ کردیا جاتا ہے۔ ’ب‘ خلیہ چونکہ جسم کے کسی بھی حصہ کا ہوسکتا ہے، اس لئے اس میں پورا انسان بنانے کی صلاحیت دَب کر، اس مخصوص حصہ کی صلاحیتیں غالب ہوتی ہیں ۔ چنانچہ کرنٹ کے ذریعے اس کی کامل صلاحیتوں کو دوبارہ متحرک کردیا جاتا ہے۔اور اس مصنوعی طریقہ سے تیار ہونے والے خلیہ کو اسی کرنٹ کے ذریعے نمو اور تقسیم در تقسیم کے مراحل کے لئے تیار کیا جاتا ہے۔گویا کہ اب یہ خلیہ اس ’نطفہ امشاج‘ یا ’زایگوٹ‘ کے مرحلہ تک پہنچ جاتا ہے جو روایتی طریقہ تولید کے بعد وجود میں آتا تھا۔بعد ازاں اس زایگوٹ کو رحم مادر میں منتقل کردیا جاتاہے۔اگلے مراحل روایتی ہی ہوتے ہیں ۔ دو خلیوں (الف اورب) سے ایک خلیہ مصنوعی طور پر حاصل کرنے کی و جہ اور فوائد کیا ہیں اور اس کا اس روایتی زایگوٹ سے کیا فرق ہے؟ اسی کے جواب میں کلوننگ کی ساری محنت کا حاصل پوشیدہ ہے… کرمِ منی اور نسوانی بیضے کے فطری ملاپ کی صورت میں بھی دراصل ایک نیا خلیہ ہی وجود میں آتا ہے۔ جو نمو کی فطری صلاحیت کی بنا پر تقسیم در تقسیم کا عمل شروع کرتا ہے اور مخصوص ماحول میں آخرکار ایک بچے کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔یہ نیا خلیہ مرد اور عورت کے دو جنسی خلیوں کے ملاپ سے بنتا ہے۔انسانی جنسی خلیات کے مرکزوں میں ۲۳، ۲۳ اکیلے کروموسومز ہوتے ہیں ، جبکہ انسانی غیرجنسی خلیہ کے مرکزہ میں ۲۳ جوڑے کروموسومز ہوتے ہیں ۔ ان کروموسومزمیں ہی تمام موروثی جین اور ڈی این اے وغیرہ ہوتے ہیں ، جن کی بنا پر انسان میں وراثت آگے منتقل ہوتی ہے۔جنسی خلیات میں ۲۳، ۲۳ کروموسومز ہونے کا مطلب یہ ہے کہ دراصل خلیات کے وہ مرکزے قابل ملاپ ہوتے ہیں ۔ جنسی خلیوں کے ۲۳ اکیلے ، اکیلے کروموسومز ملاپ کے بعد جب ۲۳ جوڑے (آسان الفاظ میں ۴۶) کروموسومز بن جاتے ہیں تو ان ۲۳ جوڑوں والے خلیہ سے ہی انسان کی تخلیق کا عمل شروع ہوسکتاہے۔جنسی خلیات کے مرکزوں کی ملاپ کی صورت ایک انسان دو مرکزوں سے مل کر وجود میں آتا ہے اور اس میں دو انسانوں کی خصوصیات اُلجھی ہوتی ہیں ، کوئی خوبی ایک انسان کی اور دو سری دوسرے انسان کی، جبکہ بعض خوبیاں ان انسانوں کے والدین یا نسل کی بھی۔ اس صورت میں کسی خوبی یا صلاحیت کا حصول یقینی نہیں رہتا بلکہ مختلف عوامل کے نتیجے میں بعض خوبیاں بعض پر غلبہ حاصل کرلیتی ہیں ۔ اس کا حل یہ سوچا گیا کہ غیر جنسی خلیہ کا۴۶ کروموسومز پر مشتمل مرکزہ کسی ایسے خلیہ کے بیرونی حصہ میں داخل کرلیا جائے جو اس کی آگے پیدائش کی بھی ضامن ہو، اور یہ ضمانت صرف نسوانی بیضہ کے خلیہ کے بیرونی
Flag Counter