Maktaba Wahhabi

71 - 78
حصہ میں موجود ہوتی ہے۔چنانچہ کوئی بھی غیر جنسی خلیہ کا مرکزہ مصنوعی طریقہ سے نسوانی بیضہ کے خول میں داخل کیا گیا ہے اور اسے آگے مستقل خلیہ کی طرح افزائش /نمو کے لئے تیارکیا گیاہے۔ایسی صورت میں دومرکزوں میں ٹکراؤ نہیں ہوتا، نہ ہی خصوصیات کی جنگ ہوتی ہے، بلکہ مقابل کچھ بھی معلومات موجودہی نہیں ہوتیں ۔ جس انسان کا یہ مرکزہ ہوگا ، بالکل اس جیسا دوسرا انسان پیدا ہوگا، جنس، رنگ، فطری وموروثی صلاحیتوں وغیرہ کے اعتبار سے۔ابھی یہ تو ایک خواہش ہے ، جو ابھی تدریجی مراحل میں ہے اور مکمل تعبیر کی محتا ج ہے!! کلوننگ کی بعض صورتوں میں مردانہ خلیہ کی بھی ضرورت نہیں ، بلکہ ب خلیہ جس سے مرکزہ لینا مقصود ہے، اسی عورت کے جسم کے کسی بھی حصہ کا ہوسکتا ہے جس سے بیضہ لیا گیا۔ یادرہے کہ مرد پیدا کرنے کی صلاحیت صرف مردانہ خلیوں کے کروموسومز میں ہی ہوتی ہے۔فطری طریقہ تولید کی صورت میں اگرمردکے مرکزہ کے کروموسومزکی بیٹا پیدا کرنے والی خصوصیت مقابل مرکزہ پر غلبہ حاصل کرے تو بیٹا ورنہ بیٹی پیدا ہوتی ہے۔چنانچہ مرد پیدا کرنے کے لئے تو مردانہ غیر جنسی خلیہ کا مرکزہ ضروری ہے، لیکن عورت پیدا کرنے کے لئے نسوانی بیضہ کے خلیہ کو مرد کے خلیہ کی ضرورت نہیں !! انسان کی وفات کے بعد ، یا دورانِ زندگی بھی جسم کے بعض خلیات مردہ ہوجاتے ہیں ، مردہ خلیات سے یہ عمل نہیں کیا جاسکتا۔ اگر انسان کی وفات کے بعد اس کے بعض خلیات کو سائنسی طریقہ سے محفوظ کرلیا جائے تو ان کو کچھ عرصہ زندہ بھی رکھا جاسکتا ہے اور ان کی مدد سے اس انسان کی نقل تیار کرنے کا امکان بھی ہے۔ کلوننگ کی ایک صورت معالجاتی کلوننگ کی بھی ہے۔ انسا ن کے بعض اعضا ناکارہ ہوجائیں تو اس میں دوسرے انسان کے اعضا کی پیوند کاری وقتی فائدہ دیتی ہے، انسانی جسم انہیں قبول کرنے سے انکار کرتا رہتا ہے جس کے لئے دواؤں کے ذریعے انسانی جسم کی قوت مدافعت کم کی جاتی ہے، جو مجموعی طور پر بذاتِ خود بڑی ضرر رساں ثابت ہوتی ہے۔اس لئے کلوننگ کے ذریعے متاثرہ/ مطلوبہ اعضا کے ہوبہو تیاری بھی ممکن ہے۔ ایسی صورت میں سابقہ طریقہ ہی بروئے کار لا کرزایگوٹ میں جب جفت تقسیم در تقسیم کا عمل شروع ہوتا ہے تو اس سے بعض ایمبریو حاصل کر لئے جاتے ہیں اور بعض کیمیکلز ڈال کر پورا انسان بنا نے کی بجائے بعض مخصوص اعضاء پیداکرنے کی طرف مائل کرنا ممکن ہوچکا ہے۔ یہ اعضاء رحم مادر کی بجائے کسی مطلوبہ ماحول میں چند دنوں میں پیدا کئے جاسکتے ہیں ، جو مرکزہ والے انسان کے جسم میں مزاحمت کی بجائے قبولیت کا رجحان پائیں گے۔ کلوننگ کے جہاں بہت سے فوائد متوقع ہیں وہاں اس کے متعددنقصانات بھی ہیں ۔ شریعت میں اس سائنسی عمل کی کس حد تک گنجائش ہے اور کس حد تک نہیں ؟ یہ بھی بڑا تفصیل طلب موضوع ہے۔کلوننگ کی صورت میں جن فوائد کا دعویٰ کیا جاتا ہے، وہ بھی یقینی نہیں بلکہ ان میں سے اکثر خواہش کا ہیں یا صرف دعووں کا درجہ رکھتے ہیں ۔ ادارۂ محدث میں ’کلوننگ کی شرعی حیثیت‘ پر بحث مباحثہ کے لئے جید علما کو عنقریب ایک مذاکرہ کی صورت میں اظہارِ خیال کی دعوت دی جارہی ہے۔چونکہ شرعی حیثیت سے پہلے اصل مسئلہ کی نوعیت کو سمجھنا بنیادی ضرورت رکھتا ہے، اس لئے شرعی آراء کی اشاعت کو فی الحال مذاکرہ تک مؤخر کیا جارہا ہے۔
Flag Counter