سے نذریں لینا، چندہ کرانا چاہتے ہوں ۔ فقط‘‘ (لغات بذیل مادّہ شر) اس اقتباس سے معلوم ہوتا ہے کہ موصوف کتاب و سنت کی آزادانہ طور پرپیروی کے مدعی تھے اور اُنہیں جو حق معلوم ہوتا تھا، وہ برملا اس کا اظہار کردیتے، قطع نظر اس کے کہ کون سا گروہ کیا کہتا اور کیا کرتا ہے۔ اس کی تائید موصوف کے درج ذیل اقتباس سے بھی ہوتی ہے: ’’فاعتزل الفرق کلها‘‘ یعنی ان سب فرقوں سے الگ رہ۔ یہی ہمارا زمانہ ہے جس فرقہ کو دیکھو وہ یا اِفراط میں مبتلا ہے یا تفریط میں ! … ایک طرف تو مقلدوں کا گروہ ہے جو تقلید کی بدعت میں گرفتار اور حدیث پر چلنے والوں کی دشمنی پر تلے ہوئے ہیں ۔ دوسری طرف غیر مقلدوں کا گروہ ہے جو اپنے تئیں اہلحدیث کہتے ہیں ۔ انہوں نے ایسی آزادی اختیار کی ہے کہ مسائل اجماعی کی بھی پرواہ نہیں کرتے؛ نہ سلف صالحین، صحابہ اور تابعین کی۔[1] قرآن کی تفسیر صرف لغت سے اپنی من مانی کرلیتے ہیں ۔ حدیث شریف میں جو تفسیر آچکی ہے، اس کو بھی نہیں سنتے۔ بعض عوام اہلحدیث کا یہ حال ہے کہ انہوں نے صرف رفع الیدین اور آمین بالجہر کو اہل حدیث ہونے کے لئے کافی سمجھا ہے۔ باقی اور آداب و سنن اور اخلاقِ نبوی سے کچھ مطلب نہیں ۔ غیبت ، جھوٹ، افترا سے باک نہیں کرتے۔ ائمہ مجتہدین رضوان اللہ علیہم اجمعین اور اولیاء اللہ اور حضرات صوفیا کے حق میں بے ادبی اور گستاخی کے کلمات زبان پر لاتے ہیں ۔ اپنے سوا تمام مسلمانوں کو مشرک اور کافر سمجھتے ہیں ۔بات بات میں ہرایک کو مشرک اور قبر پرست کہہ دیتے ہیں ۔ شرکِ اکبر کی شرکِ اصغر سے تمیز نہیں کرتے۔ ایک طرف خارجیوں اور ناصبیوں کا زور ہے جو حضرات اہل بیت کرام کے، جن کی محبت اور تعظیم سرمایۂ ایمان ہے، دشمن بنے ہوئے ہیں اور اہل بیت کے دشمنوں اور مخالفوں کی طرفداری اور حمایت پر اَڑے ہوئے ہیں ؛ دوسری طرف تبرائی رافضیوں کا شور ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جاں نثار اور مخلصین صحابہ اور خلفائے راشدین اور اُمّ المومنین |