اب کافی آرام ہے۔ چونکہ ہمارا پاس بارہ بجے تک تھا اس لئے نو بجے کی گاڑی خانیوال پہنچنے کا پروگرام بنایا۔ گاڑی میں آکر سوار ہوئے تو گاڑی چھ گھنٹے لیٹ ہوگئی او رہم بجائے دس بجے صبح کے ساڑھے تین بجے شام سرگودھا پہنچے۔ رات آٹھ بجے تک رفقا سے ملاقات کا سلسلہ جاری رہا ۔صبح پھر دس بجے تک ملاقاتیں کی گئیں او رجمعہ کے روز ساڑھے تین بجے شام میں اپنے گھر پہنچ گیا۔ میری اس غیر متوقع آمد پر میرے عزیز و اقربا اور اہالیانِ چک نے بہت خوشی منائی اور اتنے زیادہ خوش تھے کہ خوشی سے پھولے نہیں سماتے تھے۔ ابھی تک ملاقاتوں کا سلسلہ جاری ہے ۔ چونکہ یکم، دو جنوری ۱۹۵۴ء کو ضلع میانوالی کا اجتماع ہے، اس لئے تین جنوری کو لائل پور اور چنیوٹ کے رفقا سے ملاقات کے لئے جاؤں گا۔ اگر امیر جماعت نے میانوالی کے اجتماع میں شرکت کی تو تین تاریخ کو لائل پور میں ان سے ملاقات ہوجائے گی۔ صالح محمد صاحب سے اشیاء کے متعلق کہہ دیا گیا تھا -ان سے زبانی گفتگو کے ذریعہ سے معلوم ہواکہ بسا اوقات وہ بروقت چیزیں پہنچانا چاہتے ہیں مگر جیل کا عملہ چیزیں اندر بھیجنے سے انکار کردیتا ہے۔ اس وقت جماعت کے غالباً سات رفیق نظر بند ہیں ۔ شاید ان دنوں کوئی اور بھی رہائی ہوگئی ہو مگر مجھے اس کا علم نہیں ، کیونکہ چک میں کوئی خبر بھی ہو ، دو تین دن بعد پہنچتی ہے۔ ابھی تک کاروبار کی طرف کوئی توجہ نہیں دی اور پندرہ جنوری تک کوئی اِمکان بھی نہیں ۔ بعد میں کام باقاعدگی سے شروع کردوں گا۔ ان شاء اللہ…تعلیم کے جاری رکھنے کا پروگرام بھی سوچ رہا ہوں ۔ اگر میں اپنی سکیم پر عمل پیرا ہوسکا تو پھر آپ سے عرض کروں گا۔ شیخ عبداللہ صاحب سے کہہ دیجئے کہ میں نے ان کے لئے پانچ روپے ملتان منی آرڈر کردیئے ہیں اور انہیں تاکید کردی ہے کہ وہ جلد از جلد انہیں کھانڈ پہنچا دیں ۔ جیل کے ٹھیکیدار کا ایک روپیہ چھ آنے کا بل میرے ذمہ تھا۔ کیونکہ جیل والوں نے وہ رقم میرے حساب میں درج نہیں کی تھی (غالباً اس کی وجہ یہ تھی کہ دسمبر کا بل ٹھیکیدار اُنہیں نہیں پہنچا سکا تھا) اس لئے میں نے اس کی رقم بھی ملتان بھیج دی ہے توقع ہے کہ اسے جلدی مل جائے گی۔ سب دوستوں کو میرا سلام کہہ دیجئے۔ آپ جس دن بھی رِہا ہوں ، اسی دن ملتان سے اطلاع کے طور پر خود یا کسی مقامی رفیق کے ذریعہ خط تحریر کردیں تاکہ میں پھر جیل کے پتہ پر خط نہ لکھوں۔والسلام محمد نذیر مسلم،چک نمبر ۴۲ جنوبی،ڈاک خانہ خاص، تحصیل سرگودھا… ۱۱ /جنوری ۱۹۵۳ء |