دستیاب تھا جس میں صرف کسی غیر محتاط قلم کی باگیں ڈھیلی چھوڑنے کی ضرورت تھی۔ چنانچہ اس کام کا بیڑہ مسٹر غلام احمدپرویز نے اٹھا لیا جو کہ فتنوں کی آبیاری میں مہارتِ تامہ رکھتے تھے۔ زیر تبصرہ کتاب ’آئینہ پرویزیت‘ میں مدلل طریقے سے فتنہٴ انکارِ حدیث کی سرکوبی کی گئی ہے، اور مبرہن انداز میں پرویزی اعتراضات کے جوابات پیش کئے گئے ہیں ، مصنف کے بقول اس کتاب کو چھ حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے : حصہ اوّل:معتزلہ سے طلوعِ اسلام تک: اس حصہ میں منکرین حدیث کی سلسلہ وار تاریخ انکارِ حدیث کے اسباب اور عجمی تصورات کی اسلام میں درآمد، معتزلہ کے مخصو ص عقائد و نظریات اور نتائج پر بحث کی گئی ہے۔ حصہ دوم:طلوع اسلام کے نظریات: اس میں حسبنا کتاب اللَّه، عجمی سازش، نظریہٴ ارتقا، مساواتِ مردوزن، مرکز ِملت اور قرآنی نظامِ ربوبیت پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ اور عقلی ، نقلی اور تاریخی دلائل سے ان نظریات کا محاسبہ کیا گیا ہے۔ حصہ سوم: قرآنی مسائل : یہ’ قرآنی فیصلے ‘ کے جواب میں ہے اور اس میں ان تیرہ مسائل کا ذکر ہے جن کا جواب دینا ضروری تھا اور ان پر قرآن ہی کی رو سے گرفت کی جاسکتی تھی۔وہ مسائل یہ ہیں : قرآنی نماز، قرآنی زکوٰة و صدقات، قربانی، اطاعت ِوالدین، ناسخ و منسوخ، عذاب ِ قبر، ترکہ اور وصیت، یتیم پوتے کی وراثت، تلاوت ِ قرآن پاک، نکاحِ نابالغاں ، تعددِ ازواج، غلام اور لونڈیاں ، رجم اور حد ِ رجم۔ حصہ چہارم: دوام حدیث : یہ حصہ اسلم جیراج پوری کے ان مقالات کے جواب میں لکھا گیا ہے جو ’مقام حدیث‘ میں مندرج ہیں ۔ فن حدیث میں تشکیک کے جن پہلوؤں پر گفتگو کی گئی ہے وہ یہ ہیں : روایت ِحدیث، کتابت وتدوین حدیث، تنقید ِحدیث، اصولِ حدیث، دلائل حدیث اور وضع حدیث وغیرہ۔ حصہ پنجم: دفاع حدیث: یہ حصہ مقامِ حدیث کے باقی ماندہ مقالات کے جواب میں لکھا گیا ہے ان مقالات کا بیشتر حصہ کتب احادیث کے داخلی مواد پر اعتراضات اوران کے جوابات سے متعلق ہے۔عنواناتِ ابواب یہ ہیں : (۱) حدیث پر چند بنیادی اعتراضات (۲) حدیث اور چند نامور اہل علم و فکر (۳) جمع قرآن، روایات کے آئینے میں (۴) تفسیر بالحدیث (۵) متعہ کی حرمت (۶) حصولِ جنت، احادیث کی رو سے (۷) بخاری کی قابل اعتراض احادیث (۸) خلفاے راشدین کی شرعی تبدیلیاں ۔ حصہ ششم: طلوعِ اسلام کا اسلام : اس حصہ میں یہ بتایا گیا ہے کہ طلوع اسلام کا اپنا اسلام کیسا ہے اور |