کے رنگ میں رنگا ہوا اورکاغذ کا وہ ٹکڑا ہے جسے کارگاہِ عمل میں پورا کرنا کسی طور ممکن نہیں ۔اس لئے آپ دیکھ رہے ہیں کہ مغرب نے انسانی حقوق کے حوالے سے جتنابھی سفر کیا ہے، وہ اس لئے رائیگاں جارہا ہے کہ اس نے انسان کے حقوق واضح تو کردیئے لیکن ان کے پاس وہ قوتِ نافذہ نہیں ہے جس کے ذریعے ان حقوق کو کارگاہِ عمل میں لایا جاسکے۔[1] اور یہ واقعہ ہے کہ مغرب کی پوری سیاسی تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے جو چیخ چیخ کر اس بات کی گواہی دے رہے ہیں کہ ان انسانی حقوق کو نافذ کرنا تو دور کی بات، مغرب نے کبھی بھی ان مصالح اقدار و روایات اور حدود و قیود کی پابندی نہیں کی جو انسانی حقوق کے نفاذ میں ممدومعاون ہوسکتے تھے۔ اس لئے مغرب نے انسانی حقوق کے حوالہ سے جتنا بھی سفر کیا ہے، وہ سب رائیگاں ہے۔ مغربی حلقوں کی طرف سے مذہبی فسادات کے خطرہ کو پس پشت رکھ کر سلمان رشدی کی کتاب وسیع پیمانہ پر شائع کرکے جو مسلمانوں کے جذبات کوجو ٹھیس پہنچائی گئی، آخر یہ کیا ہے؟ فلسطین اور کشمیر میں استعمار کے خلاف آزادی کی جنگ لڑنے والوں کو دہشت گرد قرار دینا یہ سب کچھ کیا ہے؟ تمہیں علم ہوگاکہ جب ۱۵/ امریکی قیدیوں کو لبنان میں بند کردیا گیا تو مغربی دنیا کس طرح چیخ اٹھی تھی، کیوں ؟ اس لئے کہ ان کا تعلق گوروں کی نسل سے تھا۔ دوسری طرف اسرائیل کے عقوبت خانوں میں آج بھی ۱۰ ہزار سے زائد فلسطینی سسک سسک کر دم توڑ رہے ہیں ،لیکن خود سری میں مبتلا مغرب اور امن کا نام نہاد محافظ ’امریکہ‘ خاموشی سے یہ سارا تماشا |