اسلام اور انسانی حقوق محمود بن محمد المختار شنقیطی مترجم : محمد اسلم صدیق حقوقِ انسانی … شریعت کی میزان میں ! اسلام اور انسانی حقوق آج ہر طرف انسانی حقوق کا چرچا ہے اور حقوقِ انسانی کا موضوع ہر شخص کی زبان کا وِرد، وقت کی آواز اور عالمی دلچسپی اور توجہ کا مرکز بن گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج ملکی او ربین الاقوامی سطح پر انسانی حقوق کے نام پر بڑی بڑی کانفرنسیں منعقد اور قراردادیں پاس ہورہی ہیں ،حتیٰ کہ حقوقِ انسانی کانفاذ اس امر کو جانچنے کا معیار سمجھا جانے لگا ہے کہ ایک حکومت کس حد تک عدل و انصاف کے اُصولوں کا التزام، اپنے باشندوں کے حقوق کی حفاظت اور ان کی آزادی کا پاس رکھتی ہے۔ بلکہ حقوقِ انسانی کانفاذ جمہوری نظام کا ایک اہم عنصر سمجھا جاتا ہے جس طرح کہ جمہوریت پسندوں کا یہ کہنا ہے کہ جمہوریت سے مراد دراصل انسانی حقوق کی تائید و حمایت ہے۔ آج جب انسان قانونِ الٰہی سے دستبردار ہو چکا ہے اور اپنے خود ساختہ نظام کے سایہٴ عافیت میں پناہ ڈھونڈ رہا ہے تو ہم بغیر کسی تردّد کے یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس طرح انسان ایک ایسے جامع نظام اور دائمی سہارے سے ہاتھ دھو بیٹھا ہے جو اس کے حقوق کا حقیقی محافظ اور ترقی کا ضامن تھا اور ایک ایسے قانون سے محروم ہوگیا ہے جسے نہ زمانہ کی گردشیں بوسیدہ کر سکتی ہیں ، نہ حالات کی کروٹیں اسے زنگ آلودکرسکتی ہیں بلکہ وہ آج بھی ویسے ہی قابل عمل ہے جیسے ۱۴ سو سال پہلے تھا۔اس دعویٰ کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ انسانی تاریخ کا کوئی بھی قانون اور نظام ان انسانی حقوق کو دوسروں پرنافذ نہ کرسکا لیکن اسلام وہ واحد نظام حیات ہے جس نے سب سے پہلے بڑی صراحت اور وضاحت کے ساتھ ان حقوق کا ذکر کیا، ان کا جامع تصور دیا او رانہیں دوسروں پر نافذ کر کے دکھایا۔ تاریخ شاہد ہے کہ جب تک اسلامی حکومت کا قیام رہا، حقوقِ انسانی کانفاذ جاری و ساری رہا اور اسلامی نظام حکومت کے زیر سایہ کسی حق کا دامن بھی پامالی کے داغ سے آلودہ نہیں ہوا۔کسی نے خوب کہا : حکمنا فکان العدل منا سجيةً ولما حکمتم سال بالدم أبطح ”ہم نے حکومت کی تو انصاف ہمارے انگ انگ میں بسا ہوا تھا۔ اور جب تمہاری حکومت تھی تو وادیٴ بطحا خون سے بہہ پڑی تھی۔ “ |