اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ انسانی حقوق کا ایشو ایک میدانِ جنگ کا روپ دھار چکا ہے جہاں اسلام او رمغرب کے درمیان شدید نظریاتی اور فکری جنگ بھڑک اٹھی ہے۔ شاید آتش جنگ کے یہ شعلے اس قدر شدید نہ ہوتے، اگر اہل مغرب ہماری فقہی میراث سے تغافل یا تجاہل کا مظاہرہ نہ کرتے ۔ یا اس کا سبب وہ گمراہ کن خیالات ہیں جو رائے عامہ اور اسلام کے درمیان دیوار حائل کرنے کے لئے مستشرقین کی طرف سے وسیع پیمانے پر پھیلائے گئے۔ یا وہ اس بات کو بھول گئے کہ انہوں نے خود اسلامی تہذیب سے بہت زیادہ استفادہ کیا تھا اور انہوں نے اپنی تہذیب کی بنیاد انہی علوم پر استوار کی تھی جو مسلمانوں سے حاصل کئے تھے اور یہی وہ بنیاد تھی جس نے یورپ کی خاموش علمی فضا میں حرکت پیدا کردی تھی۔[1]لیکن حیرت ہوتی ہے کہ وہ اُصول جو ہم نے صدیاں ہوئیں ، دنیا کے سامنے واضح کئے تھے، آج انہیں اُصولوں کا درس ہمیں دیا جاتا ہے ، گویا یہ نئی انسانی دریافت ہے اورہم آج تک اس سے واقف نہیں تھے۔ ہم اس میراث کے مالک ہیں جس نے دنیا کو وہ سنہری اُصول ، شاندار روایات اور اعلیٰ اقدار بخشیں کہ آج تک کوئی قوم اس کی نظیر پیش نہیں کرسکی اور نہ کرسکتی ہی۔کیا یہ مقامِ حیرت نہیں کہ وہ مغرب جو کبھی انسان اور حیوان کے فرق سے ناآشنا تھا، آج ہمیں جسمانی صفائی اور ہاتھ پاؤں ، چہرہ دھونے کی تعلیم دے رہا ہے ۔ اگر آپ ان سے کہیں کہ اس کے لئے تو اسلام نے ہمیں وضو کی تعلیم دی ہے تو احساسِ برتری کا شکار اور خودسری میں مبتلا یہ مغربی آپ سے کہیں گے کہ تم اپنی پسماندگی اورہماری ترقی، اپنی کمتری اورہماری برتری ،اپنی فقیری او رہماری امیری کا اعتراف کیوں نہیں کرلیتے؟ حقیقت یہ ہے کہ جب قرونِ اخیرہ میں مسلمان بدترین سستی و کاہلی کا شکار ہوگئے، مسلمانوں نے غفلت کی چادریں تان لیں تو نتیجہ یہ ہوا کہ ہماری عظیم علمی میراث جو ہم نے اسلاف سے پائی تھی، یورپ کے لئے مالِ غنیمت بن گئی ۔انہوں نے پہلے توبے دردی سے ہماری میراث کو لوٹا پھر ان غاصبوں نے بدترین بددیانتی کا ارتکاب کرتے ہوئے اس سے ہمارے تمام تر نشانات مٹا کر اپنے نام کا لیبل لگا |