فِیْ الْاَرْضِ فَکَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيْعًا وَّمَنْ أحْيَاهَا فَکَاَنَّمَا أحْيَا النَّاسَ جَمِيْعًا﴾ ”اسی وجہ سے ہم نے بنی اسرائیل کے لئے (تورات) میں لکھ دیا تھا کہ جس شخص نے کسی انسان کوجان کے بدلہ کے علاوہ یا زمین میں فساد برپا کرنے کی غرض سے قتل کیا تو گویا اس نے سب انسانوں کو قتل کر دیا اور جس نے کسی کو (قتل ناحق )سے بچا لیاتو وہ گویا سب لوگو ں کی حیات کا موجب ہوا ۔‘‘ (المائدة:۳۲) (۶) پھر یہ خوبی کیا کم ہے کہ اسلام نے اس وقت یہ حقوق دنیا کو دیئے، جب یورپ تو مکمل اندھیرے میں تھا ہی، ایران و روم جیسی روشن خیال ریاستیں بھی ان حقوق سے ناآشنا تھیں ۔ پھر یہ حقوق جو اسلام نے انسان کو عطا کئے، کسی فکری کشمکش، انقلاباتِ زمانہ اور تحریکوں کے دباؤ کے نتیجے میں ظہور پذیر نہیں ہوئے، بلکہ اسلام میں حقوقِ انسانی کے تمام اُصول و احکام چودہ سو سال قبل وحی الٰہی کے چشمہ صافی سے پھوٹے تھے اور اس سے پہلے کوئی انسان بھی ان اصولوں سے آشنا نہیں تھا لیکن تاریخ شاہد ہے کہ فرانس اور برطانیہ میں انسانی حقوق کے شعور نے مختلف تحریکوں اور انقلابات کے بطن سے جنم لیا، وگرنہ یہ لوگ اس سے قبل حقوق انسانی کی ابجد سے بھی واقف نہیں تھے ۔ اسلام میں انسانی حقوق کی بعض منفرد اور امتیازی خصوصیات مجموعی لحاظ سے ان حقوق کی بازگشت انسانی حقوق کی ان بے شمار قراردادوں کے ضمن میں سنائی دیتی ہے، جو اسلامی پلیٹ فارم پر انسانی حقوق کے حوالے سے پاس ہوئیں ۔ ا ن میں سرفہرست حقوق مندرجہ ذیل ہیں : ۱) اسلام کی رو سے تمام انسان مساوی ہیں ۔اگر کسی کو کسی انسان برتری اور کوئی مقام حاصل ہے تو وہ عمل اور عقیدہ کی بنیاد پر ہے۔ ۲) جنگ کے دوران بے گناہ افراد بوڑھوں ، عورتوں اور بچوں کے تحفظ کا حق اور زخمیوں کی دیکھ بھال کا حق، قیدیوں کے حقوق، مقتولین کے مثلہ کی حرمت ،یہ سب ایسے حقوق ہیں کہ انسانی حقوق کا عالمی چارٹر ان حقوق سے یکسر خالی ہے۔ ہاں بعض بین الاقوامی معاہدوں اور قرار دادوں میں ان کا ذکر ملتا ہے مثلاً جینوا کا معاہدہ ہے۔ اسی طرح اقتصادی، اجتماعی، تمدنی وثقافتی اور سیاسی حقوق کے حوالہ سے منعقد ہونے والی بعض کانفرنسوں میں ان کا ذکر ہے جن کی حیثیت کاغذ کے ٹکڑوں سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ ۳) دورانِ جنگ فصلوں کو تباہ کرنے اور شہری عمارتوں کو گرانے کی ممانعت انسانی حقوق کے تحفظ کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔ |